ایسے ہی اگر کوئی یہ کہے کہ: حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے درمیان میں کوئی ایک دوسرا آدمی بھی خلیفہ بنا تھا؛ یا حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان میں خلیفہ بنا تھا۔ یا کوئی یہ بتائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عید کے دن اذان دی جاتی تھی؛ یا نماز کسوف؛یا نماز استسقاء کے لیے اذان دی جاتی تھی۔ یا یہ کہ آپ کے شہر مدینہ میں جمعہ کے دن ایک سے زیادہ جمعہ کے خطبات ہوا کرتے تھے۔ یا یہ کہے کہ: عید کے دن ایک سے زیادہ عید کی نمازیں ہوا کرتی تھیں ؛ یا کوئی یہ کہے کہ: آپ منیٰ میں عید کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یا یہ کہے کہ: اہل مکہ آپ کے پیچھے منیٰ اور عرفات اورمزدلفہ میں نمازیں پوری پڑھا کرتے تھے۔ یاکوئی یوں کہے کہ آپ منی میں دو نمازیں جمع کرکے پڑھا کرتے تھے؛ جیساکہ آپ قصر بھی کیا کرتے تھے۔ یا یہ کہ آپ نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں روزے فرض کیے تھے۔ یا یہ کہ آپ نے ایک چھٹی نماز فرض کی تھی وہ چاشت کے وقت کی نماز تھی یا تہجد کی۔ یا آپ نے کعبہ کے علاوہ کسی اور گھر کا حج فرض کیا تھا۔ یا یہ کہ عربوں کے ایک گروہ نے یا کسی دوسرے گروہ نے قرآن کے مقابلہ میں اس کے مشابہ کوئی کلام پیش کرکے قرآن سے مقابلہ کیا تھا۔ اور اس طرح کے دیگر جتنے بھی امور ہیں ؛ ہم ان کے بیان کرنے والے کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہم ان امور کے لازم کے انتفاء کی وجہ سے ان امور کا انتفاء یقینی طور پر جانتے ہیں ۔ کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوتا تو ہمتیں اور اسباب موجود تھے کہ ایسے واقعات کو عام بنی آدم کے لیے نقل کیا جائے۔ اور خصوصاً ہماری امت کے لیے بطور شریعت ۔ پس جب اہل علم میں سے کسی ایک نے ایسی کوئی بات نقل نہیں کی؛کجا کہ ایسی باتوں کو تواتر کی حیثیت حاصل ہو؛ تو اس سے ان واقعات کا جھوٹ ہونا معلوم ہوجاتاہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نصوص کا تعلق بھی اسی باب سے ہے۔ ان کا جھوٹ ہونا کئی طریقوں سے معلوم کیاجاسکتا ہے۔کیونکہ ان نصوص کو اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی صحیح اسناد کے ساتھ نقل نہیں کیا۔ چہ جائے کہ یہ نصوص متواتر ہوں ۔ اور نہ ہی یہ نقل کیا گیا ہے کہ کسی ایک نے عہد خلفائے راشدین میں مسئلہ خلافت پر کوئی جھگڑا یا تنازعہ نقل کیا ہو۔ اور یوم سقیفہ میں مشورہ کے وقت اور پھر حضرت عمر کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا؛ جس وقت آپ نے خلافت کے لیے چھ افراد کی شوری بنادی تھی۔پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر اس قسم کی نصوص کا کوئی وجود ہوتا جیسا کہ روافض کا دعوی ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر ایسی واضح اور قطعی نص جلی ہے جس سے مسلمانوں کا عذر ختم ہو جاتا ہے؛ اگر ایسی بات ہوتی تو پھر ضرورت کے تحت یہ معلوم شدہ تھا کہ لوگ اسے نقل کرتے؛ جیسا کہ اس جیسی دوسری روایات نقل کی گئی ہیں ۔اور یہ بھی ضروری تھا کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد اسے روایت کرتی ۔بلکہ اکثر لوگوں کو اس کا علم ہوتا۔اس جیسے مواقع پر ایسی باتیں نقل کرنے کے لیے ہمتیں خوب ساتھ دیتی ہیں ؛ اور ان میں انتہاء درجہ کی چستی اور تندہی پائی جاتی ہے۔ پس لازم کے انتفاء کا تقاضا ہے کہ ملزوم بھی منتفی ہو۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔
خلاصہ کلام! جھوٹ سچائی کی نقیض[الٹ ]ہے۔ کسی ایک نقیض کا انتفاء یا تو اس کے نقیض کے اثبات سے ہوجاتا
|