غزوہ احد؛غزوہ خندق؛غزوہ خیبر؛غزوہ فتح مکہ؛غزوہ طائف؛ اور وہ غزوات جن میں قتال کی نوبت نہیں آئی جیسے :؛غزوہ تبوک اور اس کے علاوہ دوسرے غزوات ۔ اور جوکچھ قرآن کا حصہ ان غزوات میں نازل ہوا ہے ؛ جیسا کہ سورت انفال کے نزول کا سبب غزوہ بدر تھا۔ اورسورت آل عمران کا آخری حصہ ؛غزوہ احد کے بارے میں ؛اور اس کا پہلا حصہ نجران کے عیسائیوں کے بارے میں ؛ اور سورت حشر غزوہ بنی نضیر کے بارے میں ؛اور سورت احزاب غزوہ خندق کے بارے میں ؛اور سورت فتح صلح حدیبیہ کے بارے میں ؛ اور سورت توبہ غزوہ تبوک اور اس کے امثال دیگر واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔
جب غزوات کے بارے میں کوئی ایسی چیزروایت کی جائے جس کا خلاف واقع ہونا معلوم ہو تو اس سے اس روایت کا جھوٹ ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اس رافضی مصنف نے بھی روایت کیا ہے۔ اس کے امثال دوسرے روافض اور دوسرے لوگ بھی غزوات کے بارے میں ایسی چیزیں روایت کرتے ہیں جن کا جھوٹ ہونا ظاہری طور پر معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ اور مثلاً یہ معلوم ہوجائے کہ نزول قرآن کا وقت معلوم ہوجائے کہ [کونسی آیات ]کب [اور کہاں ]نازل ہوئی ہیں ؟جیسا کہ یہ معلوم ہے کہ سورت بقرہ ؛ آل عمران؛ مائدہ اور انفال اور برأت [توبہ] ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں ۔ اور یہ کہ انعام ؛ اعراف؛ یونس ؛ ہود؛ یوسف؛کہف اور طہ ؛ مریم ؛ اوراقتربت الساعہ ؛ اور ھل اتی علی الانسان اور دوسری سورتیں ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی ہیں ۔ اور یہ کہ معراج کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا۔ اور اصحاب صفہ مدینہ طیبہ میں تھے۔ اور اہل صفہ جملہ طور پر ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی جنگ نہیں لڑی۔ یہ کوئی متعین لوگ نہیں تھے۔ بلکہ صفہ ایک جگہ تھی جہاں پر یہ غریب الدیاراجنبی لوگ جمع ہوا کرتے تھے جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوا کرتا۔اورجو لوگ ان میں داخل ہوئے تھے ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص؛ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما اور دوسرے نیکوکار اہل ایمان شامل تھے۔ اور جیساکہ قبیلہ عرینہ کے لوگ جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے لوگ بھیجے؛ [جو انہیں پکڑ لائے]۔ پھر ان کے ہاتھ اورپاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئیں ۔ اور انہیں حرہ کے پتھروں میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے ؛ مگر انہیں پانی نہ دیا جاتا۔ اور اس طرح کے دوسرے واقعات بھی ہیں جو کہ معلوم شدہ ہیں ۔
جب کوئی جاہل ان کے خلاف روایت کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
مزید جن طرق سے جھوٹ معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں ایک یا دو افراد منفرد ہوں ۔ حالانکہ حالات و واقعات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہوتا تو اسباب اور ہمتیں اس کو نقل کرنے میں کمی نہ کرتے۔ اس لیے کہ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ کوئی ایک جب کسی بڑے شہر کی [اچھوتی] خبردے؛ جیسے بغداد؛ اورشام اور عراق وغیرہ؛تو ہمیں اس کا جھوٹ ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوا ہوتا تو باقی لوگوں کو اس کی خبر ہوتی۔
|