اس طرح کی جھوٹی روایات کی ایک مثال جو ابن جوزی نے نسائی کے حوالے سے اپنی کتاب میں نقل کی ہے نسائی نے اسے خصائص علی میں عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت کیا ہے وہ کہتا ہے ہم سے علا بن صالح نے حدیث بیان کی وہ منہال بن عمرو سے روایت کرتا ہے وہ عباد بن عبداللہ سدی سے روایت کرتا ہے کہا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ ہوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد صرف جھوٹا ہی اس چیز کا دعوی کرے گا۔ میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے۔یہ حدیث امام احمد رحمہ اللہ نے الفضائل میں روایت کی ہے۔ اور اسی سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے: میں نے باقی لوگوں سے سات سال پہلے اسلام قبول کیا ہے۔
یہ روایت علا بن صالح نے منہال بن عبادسے بھی روایت کی ہے۔
ابو الفرج رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ من گھڑت روایت ہے۔ اس میں جھوٹ بولنے والا عباد بن عبداللہ ہے ۔
علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ حدیث میں بہت کمزور تھا۔
ابو الفرج رحمہ اللہ نے کہاہے: حماد الازدی نے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن کی متابعت میں کوئی دوسری روایت نہیں ملتی۔ جب کہ منہال سے روایت کو شعبہ نے ترک کیا ہے۔ ابوبکر الاثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے متعلق پوچھا : کہ میں عبداللہ ہوں میں رسول اللہ کا بھائی ہوں تو آپ نے فرمایا:یہ روایت اس کے منہ پر دے مارو وہ حدیث کا منکر تھا۔
میں کہتا ہوں : عباد اپنی سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایس چیزیں روایت کرتا ہے جن کے جھوٹ ہونے کے بارے میں قطعی اور یقینی علم حاصل ہے۔ جیسا کہ یہ حدیث۔ ہم یقین طور پر جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نیک سیرت اور سچے انسان تھے۔ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف تھا؛ وہ ایسا جھوٹ ہر گز نہیں بول سکتے۔ ان کے تقوی سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسا کھلا ہوا جھوٹ بولیں جس کی دروغ گوئی صاف ظاہر اور ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے جس میں شک و شبہ نہیں ۔ اور ہمیں یہ بھی یقینی علم ہے کہ حضرت علی نے کوئی ایس بات نہیں ۔ آپ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ آپ جان بوجھ کر ایسا قبیح جھوٹ نہیں بول سکتے۔اور یہ کوئی ایسا مشتبہ معاملہ نہیں ہے جس میں خطاء ہو جائے۔پس یہ واقعات نقل کرنے والا یا تو جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہے یا پھر بہت بڑی غلطی اور خطا کا مرتکب ہورہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے خوارج اور بنی مروان کے لیے تعصب رکھنے والوں کی قدح ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صداقت ؛ نیکی و بھلائی اور تقوی کے بارے میں کسی شک میں نہیں ڈال سکتی۔ ایسے ہی روافض کا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پرقدح کرنا؛بلکہ شیعہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح کرنا ہمیں ان حضرات رضی اللہ عنہم کی صداقت؛ تقوی اور نیکی کے بارے علم میں کسی شک و شبہ میں نہیں ڈال سکتا۔ بلکہ ہم یقینی طور پر دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں کہ : ان میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا آپ کے علاوہ کسی بھی دوسرے انسان پر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
|