تھے۔اگرہر قتل کرنے والا ہی بہادر ہوتا ہے تو پھر دوسرے بہت سارے ایسے صحابہ بھی ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا ؛ تووہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ بہادر ہوں گے۔ [جو شخص سیر و مغازی کے احوال و واقعات بہ امعان نظر پڑھتا ہے، وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔]
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے مبارزت طلبی کرکے سو کافروں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ جن کے خون میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک تھے وہ اس پر مزید ہیں ۔[1]
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں جو کفار و اصل جہنم ہوئے ان کاشمارتو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ غزوۂ موتہ میں ان کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹی تھیں۔‘‘[2]
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت کئی گنا زیادہ لوگوں کو قتل کیا تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر طبیعی شجاعت کے ساتھ ساتھ دینی شجاعت بھی کمال درجہ کی تھی۔یہ اللہ تعالیٰ پر یقین کی قوت ‘ اور مؤمنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی نصرت پر ثقہ اعتماد۔ یہ شجاعت تو ہر قوت قلب والے کو حاصل نہیں ہوتی۔ یہ قوت ایمان ویقین کے زیادہ ہونے سے بڑھ جاتی ہے اوراس کے کم ہونے سے کم ہوجاتی ہے ۔ جس انسان کو یقین کو ہو کہ وہ دشمن پر غالب آئے گا تو وہ یقیناً ایسی پیش قدمی کرتا ہے جو عام پیش قدمی کی طرح نہیں ہوتی۔ یہ بات مسلمانوں کی اپنے دشمن کے خلاف پیش قدمی اوران کی شجاعت کے بڑے اسباب میں سے ایک تھی۔
وہ بلاشبہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی خبر پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ آخرکار ان لوگوں کو کامیابی ملے گی اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں پر دنیا کے شہروں کوفتح کرے گا۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شجاعت کی ایک اور مثال جسے صحیحین میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا وہ سخت ترین بات کون سی تھی جو مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی؟ انہوں نے فرمایا:’’ میں نے عقبہ بن ابی معیط کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے اس نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر آپ کا گلا بہت زور سے گھوٹنا شروع کیا اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور آ کر اس کو آپ سے ہٹایا اور کہا:
﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّی اللّٰہُ وَقَدْ جَائَکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ﴾ [غافر۲۸]
’’ کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے ’’میرا رب اللہ ہے ‘‘حالانکہ یقیناً وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘[3]
|