Maktaba Wahhabi

621 - 764
واضح طور پر اہل ایمان کو سکون و اطمینان کے مورد میں آپ کا شریک قرار دیاہے، مگر آیت زیر تبصرہ میں یہ صراحت موجود نہیں ۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور نقص نہیں ہوسکتا۔‘‘ ٭ نیز آیت قرآنی﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾۔حضرت ابو الدحداح رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے ۔ آپ نے اپنے ایک پڑوسی کے لیے ایک کھجور کا درخت خریدا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسان کو اس کھجور کے درخت کے بدلہ میں جنت میں ایک درخت کی بشارت سنائی تھی ؛مگروہ نہ مانا۔یہ بات حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ نے سن لی تو انہوں نے پورا باغ خرید کر اپنے پڑوسی کوہبہ کردیا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عوض جنت میں ایک باغ کی خوشخبری سنائی۔ ٭ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ ﴾ [الفتح ۱۶] مراد یہ ہے کہ :ہم عنقریب ایک قوم کی طرف بلائیں گے۔یہاں پرمقصود وہ لوگ ہیں جو صلح حدیبیہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اور یہ لوگ چاہتے تھے کہ غزوہ خیبر کی غنیمت پانے کے لیے آپ کے ساتھ جائیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کرمنع کردیا کہ: ﴿قُلْ لَنْ تَتَّبِعُوْنَا﴾۔’’ فرمادیجیے: ’’ ہر گزہمارے ساتھ نہ چلیے۔‘‘اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خیبر کے غنائم کو ان لوگوں کے لیے خاص کردیا تھا جو کہ صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے۔ پھر فرمایا:﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ﴾ [الفتح ۱۶]یہاں مراد یہ ہے کہ : ہم تمہیں اس کے بعد ایک ایسی قوم کے ساتھ جنگ کے لیے بلائیں گے جو کہ بہت سخت لڑاکو ہوں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بہت سارے غزوات کی دعوت دی جیسے غزوہ مؤتہ ؛ حنین؛ تبوک وغیرہ۔تو یہاں پر داعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ داعی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں ۔ اس لیے کہ آپ نے عہد و پیمان توڑنے والوں ‘ وعدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں اور دین اسلام سے نکل جانے والوں سے قتال کیا۔ اور وہ لوگ اسلام قبول کرتے ہوئے آپ کی اطاعت میں داخل ہوئے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ یَا عَلِیُّ حَرْبِیْ حَرْبُکَ‘‘ ’’ اے علی تیری جنگ میری جنگ ہے ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنا کفر ہے۔‘‘ ٭ نیز یہ کہ : بدر کے جھونپڑے میں آپ کا انیس و غمخوار ہونے میں فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے مانوس ہونے کی وجہ سے ہر انیس و غمخوار سے بے نیاز تھے۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ : اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جنگ کرنے کا حکم دیا تو خرابی پیدا ہوگی ؛ اس لیے کہ وہ بھاگ جائے گا جیسا کہ اس سے پہلے کئی غزوات میں بھاگ چکا ہے [تو اسے اپنے پاس بلالیا]۔ اب کون سا عمل افضل ہے ؟ وہ جو جہاد کو ترک کردے یا پھر اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔‘‘ ٭ یہ جھوٹ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کیا کرتے تھے، اس لیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مال دار نہ تھے۔اس کا باپ انتہائی درجہ کا قلاش انسان تھا۔جو کہ عبداللہ بن جدعان کے دسترخوان پر ایک مد یومیہ کے بدلہ آواز لگایا کرتا تھا؛ اور
Flag Counter