Maktaba Wahhabi

157 - 764
’’ اے مسلمانو!کیا محمد زندہ ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاموش رہو؛ جواب نہ دو۔ پھر کہنے لگا :اچھا ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر زندہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا: چپ رہو جواب مت دو۔ پھر کہا :اچھا خطاب کے بیٹے عمر زندہ ہیں ؟پھر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سب مارے گئے؛ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا؛ اور کہنے لگے: او دشمن خدا!تو جھوٹا ہے اللہ نے تجھے ذلیل کرنے کے لیے ان کو قائم رکھا ہے۔ ابوسفیان نے نعرہ لگایا: اے ہبل! تو بلند اور اونچا ہے؛ ہماری مدد کر۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم بھی جواب دو؛ پوچھا :کیا جواب دیں ؟ فرمایا :کہو اللہ بلند و بالا اور بزرگ ہے۔‘‘ ابوسفیان نے کہا :ہماری مدد گار عزی ہے اور تمہارے پاس کوئی عزی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کو جواب دو۔‘‘ پوچھا :کیا جواب دیں ؟ فرمایا :کہو :’’اللہ ہمارا مددگار ہے، تمہارا مددگار کوئی نہیں ۔‘‘ ابوسفیان نے کہا: بدر کا بدلہ ہوگیا لڑائی ڈول کی طرح ہے ہار جیت رہتی ہے۔ کہا: تم کو میدان میں بہت سی لاشیں ملیں گی جن کے ناک کان کٹے ہوں گے میں نے یہ حکم نہیں دیا تھا اور نہ مجھے اس کا افسوس ہے۔ [البخاری:ج: دوم:ح۱۲۳۶] یہ اس وقت میں مشرکین کے لشکرکاقائد ہے ؛ یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھ رہا ہے ۔اگران لوگوں کو ان تین حضرات کے علاوہ کسی اور کا خوف ہوتا ؛ جیسے حضرت عثمان و علی اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم ؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید ان لوگوں سے ہوئی ہوتی جیسے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی ہے ؛ تو پھر ضرور ان کے بارے میں بھی ایسے ہی سوال کرتے جیسے ان حضرات کے بارے میں سوال کیا تھا ۔کیونکہ سوال کرنے کا مقتضی اپنی جگہ پر باقی ہوتا ۔اور سوال کرنے میں کوئی مانع بھی موجود نہیں تھا۔اس لیے کہ قدرت اور داعی کی موجود گی میں جب صارف بھی منتفی ہو تو پھر فعل کا بجالانا واجب ہوجاتا ہے۔ پانچویں وجہ:....اسلام کی نشرواشاعت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انفرادی طور پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں تھا۔جتنا اثر آپ کا تھا اتنا ہی آپ جیسے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اثر و کردار تھا۔ جبکہ بعض صحابہ کے اثرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثرات سے بہت زیادہ اوربلیغ تھے۔جن لوگوں کو صحیح تاریخ وسیرت سے معرفت ہے ؛ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ہاں جو لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں ‘ اور طرقیہ کے راستے پر چلتے ہیں تو [پھر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ] جھوٹ کا دروازہ کھلا ہے۔ یہ جھوٹ ایسے ہی ہوگا جیسے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہٗ ﴾ [العنکبوت۶۸]
Flag Counter