زمرہ میں داخل نہیں ۔ ہم ضعیف اقوال و آثار کو اسی طرح پہچان لیتے ہیں جس طرح ایک ماہر نقاد قسم اٹھا کر یہ کہہ سکتاہے کہ یہ سکہ کھوٹا ہے۔ اور جس کسی کو سکوں کی کوئی پہچان نہ ہو وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرسکے۔
تیسری بات:....اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَoوَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَہُمْ ﴾ [الأنفال ۶۲۔۶۳]
’’وہی اللہ ہے ؛اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے آپ کی تائید کی ۔ان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دی۔ زمین میں جو کچھ ہے اگرآپ سارے کا سارا بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتے۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے ۔‘‘
یہ آیت اس بات پر نص قاطع کی حیثیت رکھتی ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں الفت ڈال دی گئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان اہل ایمان میں سے ایک تھے۔ آپ کے بہت سارے دل نہیں تھے کہ ان میں الفت ڈالی گئی ہوتی۔ مؤمنون مؤمن کی کی جمع ہے۔یہ صریح نص ہے ؛ اس میں یہ احتمال تک نہیں ہے کہ اس سے مراد کوئی ایک متعین شخص ہوگا۔تو پھر یہ کہنا کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ؟
چوتھی بات:....شیعہ سے کہا جائے گا کہ: یہ ایک بدیہی بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ دین اسلام کا قیام صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اعانت کا رہین منت نہ تھا۔ بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ شروع میں اسلام لائے؛ اس وقت اسلام بہت کمزور تھا۔ اگر لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور ہجرت و نصرت نہ ہوتی توصرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تائیدسے کچھ بھی نہ بنتا۔ لوگ نہ تو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام لائے تھے؛ اور نہ ہی آپ کی وجہ سے ہجرت و نصرت کی تھی ۔ اور نہ ہی مکہ یا مدینہ میں دعوتِ اسلامی کی نشرو اشاعت کی کوئی ایسی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر تھی جیسی ذمہ داری حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر تھی۔اور نہ ہی کسی نے یہ نقل کیا ہے کہ سابقین اولین میں سے کسی ایک نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاہو؛نہ ہی مہاجرین میں سے اور نہ ہی انصار میں سے ۔ بلکہ صحابہ کرام سے کسی بھی [قابل ذکر] انسان نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول نہیں کیا۔لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یمن میں مبعوث کیا تو پھر جن لوگوں کے مقدر میں ہدایت تھی انہوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ وہاں پر جن لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا؛ وہ صحابہ نہیں ہیں ۔جب کہ بڑے بڑے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر اسلام لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ ہی مشرکین کو دعوت دیتے تھے اورنہ ہی ان سے مناظرہ کرتے تھے؛ جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں دعوت دیتے اور ان سے مناظرے کرتے ۔اور مشرکین آپ سے ایسے نہیں ڈرتے تھے جیسے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے ڈرتے تھے۔
بلکہ حدیث کی تمام کتب ؛صحاح ؛ مسانید؛ اور مغازی میں ثابت ہے ؛ اور لوگوں کااس پر اتفاق ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمان منہ پھیر کر بھاگ گئے تو اس وقت ؛ توابوسفیان نے ایک بلند جگہ پر چڑھ کر پکارا:
|