ہے ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت ہے جوکہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہیں ہوسکی ۔ لہٰذا آپ ہی امام تھے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔
[جواب]:اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے:
پہلی بات: ....ہم اس روایت کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ کسی روایت کے صرف ابو نعیم کی طرف منسوب کر لینے وہ قابل حجت نہیں ٹھہرتی؛ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ ابو نعیم کی مشہور کتاب’’ فضائل الصحابہ ‘‘ ہے ۔ اس میں سے کچھ چیزیں اس نے اپنی کتاب ’’الحلیہ‘‘ کے شروع میں بیان کی ہیں ۔ اگر شیعہ ان کتابوں کی ہر روایت کو قابل حجت سمجھتے ہیں تو پھر ان میں حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل میں ایسی روایات بیان کی گئی ہیں جن سے شیعیت کی پوری عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے ؛ اور ارکان شیعیت منہدم ہوسکتے ہیں ۔ اور اگر اس کی ہر روایت کو حجت نہیں سمجھتے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس کی روایات ان کے ہاں ناقابل اعتماد ہیں ۔جب کہ ہم اہل سنت روایات کے مسئلہ میں -خواہ وہ ابو نعیم کی روایت ہو یا پھر کسی دوسرے کی - اہل علم کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔اور ان اسناد کی جانچ پرکھ کرتے ہیں جن کے راویوں کے احوال کی معرفت سے روایت کا سچ یا جھوٹ واضح ہوسکے۔ کیا اس کے سارے راوی ثقہ ہیں یا نہیں ؟پھر ہم حدیث کے دوسرے شواہد تلاش کرتے ہیں ؛ اور دیکھتے ہیں کہ روایات کس چیز پردلالت کرتی ہیں ۔ہمارے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کسی دوسرے کے فضائل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو چیز ثابت ہوتی ہے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں ‘ اور جوجھوٹ ہوتی ہے ؛ ہم اسے رد کردیتے ہیں ۔ہم سچ بات لے کر آتے ہیں او رسچائی کی تصدیق کرتے ہیں ۔نہ ہی جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی سچے کو جھوٹا کہتے ہیں ۔ ائمہ اہل سنت کے ہاں یہ قاعدہ معروف ہے ۔
پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر جھوٹے بہتان گھڑے ؛ اور حق بات کو جھٹلائے؛ تو ہم پر واجب ہوتا ہے کہ ہم اسے جھٹلائیں ؛ اور اس کی حق بات کی نفی کو رد کریں ۔جیسا کہ ہم مسیلمہ کذاب اور دوسرے جھوٹے لوگوں او رانبیاء کرام کی تکذیب کرنے والوں کو جھٹلاتے ہیں ؛ اور رسولوں پر ایمان لانے والوں اور ان کی تصدیق کرنے والوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔
دوسری بات:....محدثین او راہل علم کا -شیعہ مصنف کی پیش کردہ -اس روایت کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے۔مذکورہ بالا روایت اور اس کے علاوہ دیگر جن روایات کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ روایات موضوع ہیں ؛ ان کے بارے میں ہمارا دوٹوک مؤقف یہی ہے کہ یہ روایات من گھڑت ہیں ۔
ہم اس اﷲکی قسم أٹھاتے ہیں جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ! ہم یقینی طور پر بغیر کسی شک و شبہ کے یہ جانتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا واضح علم موجود ہے جس کو ہمارے دلوں سے زائل نہیں کیاجا سکتا۔اور ہم جانتے ہیں کہ روایت جھوٹ ہے؛ یہ حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ پر بہتان باندھا گیا ہے، آپ نے ایسی کوئی روایت بیان نہیں کی۔ یہی حال اس طرح کی ان دوسری روایات کا بھی ہے جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ یہ موضوع ہیں ۔اور جو بھی انسان علم الحدیث اور دین اسلام سے معمولی سا شغف رکھتا ہو وہ ہماری بات کو جان پرکھ سکتا ہے۔اور جو شخص علم الآثار سے بے گانہ ہے وہ ہمارے
|