بات اجماع کے بھی خلاف ہے اور اسلام میں ضرورت کے تحت معلوم شدہ امور کے بھی خلاف ہے ۔
چوتھا جواب: شیعہ کا یہ قول ہے کہ ’’ مخالفت محبت کے منافی ہے۔‘‘
ہم پوچھتے ہیں :ایسا کب ہوگا؟ جب محبت واجب ہوگی یا پھر مطلق طور پر ؟ مطلق کہنے کی صورت میں یہ ممنوع ہے۔
وگرنہ جو کوئی کسی دوسرے پر کوئی ایسی چیز واجب کرتاہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب نہیں کی؛تو پھر اگر وہ اس کا حکم ماننے میں اس کی مخالفت کرے گا تو اس سے محبت کرنے والا نہیں ہوگا۔اور کوئی مؤمن کسی مؤمن سے اس وقت تک محبت کرنے والا نہیں ہوسکتا جب تک اسکی اطاعت کے واجب ہونے کا یقین نہ کرلے؛ اس نظریہ کی خرابی صاف ظاہر ہے ۔
پہلی صورت میں :جب مخالفت صرف اسی صورت میں محبت میں قادح ہوتی ہے جب وہ شخص واجب الاطاعت ہو۔اس صورت میں پہلے وجوب اطاعت کا علم ضروری ہے۔تاکہ اس کی مخالفت کی صورت میں اس کی محبت پر قدح کرسکیں ۔ جب اطاعت کو اس لیے واجب قرار دیا جائے گا کہ محبت واجب ہے تو دور لازم آئے گا؛ جو کہ ممتنع ہے۔اس لیے کہ کسی مخالفت سے اس وقت تک محبت پر قدح نہیں کی جاسکتی جب تک اس کی اطاعت کا واجب ہونا معلوم نہ ہو۔ اور اطاعت کا واجب ہونا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ امام ہے ۔ اور امام ہونے کا اس وقت تک علم نہیں ہوسکتا جب تک اس کی محبت واجب ہونے کا علم نہ ہو‘ اور یہ علم ہو کہ اس کی مخالفت محبت میں قدح کا سبب ہوگی۔
پانچواں جواب:....[ہم پوچھتے ہیں ]کیا مخالفت محبت میں اسی صورت میں قادح ہوسکتی ہے [جب وہ شخص امام ہو]اور اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو؟
دوسرے جواب کی ضرورت کے تحت نفی کی گئی ہے۔ جب کہ پہلے جواب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کے زمانہ میں ایسا نہیں کیا تھا۔
چھٹا جواب:....یہی بات حضرات خلفاء ثلاثہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے۔ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی محبت و اطاعت بھی واجب ہے۔او ران کی مخالفت ان کی محبت میں قادح ہے۔
ساتواں جواب:....اس حدیث میں سے ترجیح کے امور : اس لیے کہ شیعہ نے اپنی ولایت و محبت اور اطاعت کے دعوی کے ساتھ ساتھ امامت کا بھی دعوی کیا ہے۔ اور [ان کا دعوی ہے کہ] اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت واجب کی ہے ۔ اور ان کی مخالفت ان کے ساتھ محبت میں قادح ہے۔ بلکہ اللہ اوراس کے رسول کی محبت میں بھی قدح کا سبب ہے ۔ او راس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے رافضیت کی بدعت کو ایجاد کیا ؛ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والا نہیں تھا۔ بلکہ حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کا پکا دشمن تھا۔
ان لوگوں کا اہل سنت کے ساتھ ایسے ہی معاملہ ہے جیسا عیسائیوں کا مسلمانوں کے ساتھ۔ اس لیے کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو تو رب قرار دیتے ہیں ‘ اور حضرت ابراہیم ؛ موسیٰ ؛ اور محمد علیہم السلام کوان حواریوں سے بھی کم درجہ کا سمجھتے
|