Maktaba Wahhabi

601 - 764
میں کسی چیز کو واجب کہنے والا اسے اپنی ذات پر بھی واجب کرتا ہے او ردوسروں پر بھی۔اور کسی چیز کو حرام کہنے والا بھی اس چیز کو اپنی ذات پر بھی اور دوسرے لوگوں پر بھی حرام کرتا ہے۔اس میں تنازع کرنے والے پر کوئی تہمت نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کسی واقعہ میں فریق مقابل کے خلاف بطور حجت اگر ایک انسان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت کررہا ہوتو اسے قبول کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ حدیث عام ہوتی ہے ‘ جو اس روایت کرنے والے اور دوسرے تمام لوگوں کو شامل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث کی بنا پر اگر آج کسی کے حق میں فیصلہ ہورہا ہے تو کل اسی کی بنا پر اس کے خلاف بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔بخلاف اس کے کوئی اپنی ذات کے متعلق گواہی دے۔یہ گواہی قبول نہیں کی جاسکتی ۔ اس لیے کہ یہی فریق مخالف ہے۔اور فریق مخالف کی گواہی اس کے حق میں قبول نہیں ہوتی۔ پس جب کوئی ایک شخص معلوم شدہ نص کی مخالفت کرے گا تو اس کے قول کو شاذ قرار دیا جائے گا، مثلاً سعید بن مسَیّب رحمہ اللہ کا یہ قول کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی جائیں ، جب وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے تو صرف نکاح کرنے ہی سے وہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جاتی ہے۔‘‘ یہاں پر اس قول کی کوئی اہمیت نہیں ؛ اس لیے کہ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد نصوص اس کے خلاف وارد ہوئی ہیں ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی خواہش یہ تھی کہ انصار میں سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری ایسی نصوص منقول ہیں جن کی روسے امامت قریش میں تسلیم کی گئی ہے۔اگر اس موقع پر مخالف بھی قریشی ہوتا اور فیصلہ اس کے خلاف ہوجاتاتو پھر ایک شبہ سا باقی رہتا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قریش میں سے تھے ؛ اور یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے بخوشی و رضامندی سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی۔ دوسری وجہ:....جس قدر لوگوں کا اختلاف رافضی مصنف نے ذکر کیا ہے ‘ اگر اس سے تین گنا زیادہ لوگوں کا اختلاف بھی اگر فرض کرلیا جائے تو بھی اس سے خلافت کے ثبوت میں قدح وارد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ خلافت کے مسئلہ میں اہل شوکت اوران جمہور کا اتفاق شرط ہے جن کی وجہ سے خلافت کا انعقاد ممکن ہوسکتا ہو[انعقاد خلافت کے لیے صرف ارباب حل و عقد اور جمہور کا اتفاق شرط ہے]؛ تاکہ امامت کے مقاصد پورے ہوسکیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جماعت [1]
Flag Counter