Maktaba Wahhabi

198 - 764
میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ﴾ ’’ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایاتاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں ۔‘‘ اس جاہل شیعہ نے جس چیز کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت گردانا؛اس کی وجہ سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ او ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی پر بھی قدح وارد ہوئی جن کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل ایمان میں سے شمار ہونے لگے تھے۔ایسا کلام کسی زندیق سے ہی صادر ہوسکتا ہے یا پھر کسی انتہائی درجہ کے جاہل انسان سے ۔ ’’ اگر تم کچھ نہیں جانتے تو یہ بھی مصیبت ہے ۔ اور اگر جانتے ہو تو پھر مصیبت اس سے بھی بڑی ہے ۔‘‘ ۵۔ پانچویں وجہ : علاوہ ازیں اﷲتعالیٰ نے کے متعدد مقامات پر اہل کتاب کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ قرآن میں فرمایا: ﴿قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ ﴾[فصلت۵۲] ’’آپ کہہ دیجئے!اگر یہ(قرآن)اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو۔‘‘ اور فرمایا:﴿بِہٖ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ بَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ عَلٰی مِثْلِہٖ ﴾ [الأحقاف ۱۰] ’’ اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو۔‘‘ اس رافضی سے پوچھا جائے گا کہ : کیا تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنی اسرائیل میں سے شمار کرتے ہو؟ نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ﴾ ( یونس:۹۴) ’’اگر آپ کو قرآن کے بارے میں کوئی شبہ لاحق ہو تو ان لوگوں سے پوچھ لیجیے جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ۔‘‘ اس سے پوچھا جائے کہ : کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے تھے؟ نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ﴾ [یوسف۱۰۹] ’’آپ سے پہلے بھی ہم مردوں کو ہی بھیجتے رہے، جن کی جانب وحی اتارا کرتے تھے۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾۔[النحل۴۳] ’’ پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو ۔‘‘ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی وہ اہل ذکر ہیں جن سے پوچھنے کا کہا گیا ہے یا آپ ان رجال میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ
Flag Counter