حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کی صورت میں جب آپ کی غیوبت طوالت اختیار کر لیتی تو آپ کا خلیفہ ہونا زیادہ قرین عقل و قیاس تھا۔‘‘
[جواب]: اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مذکورہ بالا حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ غزوہ ٔ تبوک کو جاتے وقت ارشاد فرمائے تھے۔[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب بھی آپ کسی غزوہ پر یا عمرہ پر یا حج پر مدینہ سے باہر جاتے؛ تومدینہ میں کسی صحابی کو اپنا نائب مقرر کردیا کرتے تھے۔جیساکہ آپ نے :
۱۔ غزوہ ذی امر پر جاتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا ۔
۲۔ غزوہ بنی قینقاع میں حضرت بشیر بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا ۔
۳۔ جب قریش کے ساتھ غزوہ پیش آیا اور آپ مقام قرع تک پہنچے تو ابن ام ِ مکتوم کو نائب مقرر فرمایا۔جیسا کہ محمد بن سعد نے ذکر کیا ہے ۔
جملہ طور پر یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اس وقت تک آپ مدینہ سے باہر تشریف نہیں لے جایا کرتے تھے جب تک کسی کو اپنا نائب مقرر نہ فرمادیتے ۔ مسلمان مؤرخین نے ان حضرات کے نام ذکر کیے ہیں جنہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نائب مقرر کیا تھا ۔
مدینہ طیبہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار عمرہ کاسفر کا کیا۔ ایک بار عمرہ حدیبیہ ؛ اوردوسری بار عمرہ قضا؛اور حجۃ الوداع کاسفر۔ اس کے علاوہ تقریباً بیس سے زیادہ مغازی کے سفر۔ ان میں سے ہر ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نہ کسی کو مدینہ طیبہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ اس وقت مدینہ میں بہت سارے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن پر آپ کسی کو اپنا نائب مقرر فرماتے ۔
لیکن غزوۂ تبوک کو جاتے وقت کسی کو پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ ہے۔اور کسی اور غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جمعیت آپ کے ساتھ شریک سفر نہیں ہوئی جتنی بڑی جمعیت اس غزوہ میں تھی۔اس غزوہ میں صرف بچے اورخواتین ہی پیچھے رہ گئے تھے؛ یا پھر وہ لوگ تھے جو اپنی معذوری کی وجہ سے غزوہ پر نہیں جاسکے۔ یا پھر منافق۔ تین صحابہ بھی آپ کے ہمراہ نہ جا سکے تھے؛ جن کی توبہ قبول کرلی گئی۔[ فتح مکہ اور حجۃ الوداع کو جاتے وقت بھی آپ نے اپنا نائب مقرر کیا تھا۔مگر] غزوۂ تبوک کے موقع پر مدینہ میں مسلمانوں کی کوئی جماعت بھی باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے یہ استخلاف اپنی نوعیت میں نرالا تھا؛ اور باقی استخلاف کی طرح نہیں تھا جیساکہ ہر بار مدینہ سے باہر جاتے ہوئے مقرر فرمایا کرتے تھے۔بلکہ یہ استخلاف بقیہ استخلافات کی نسبت کمزور تھا۔
|