Maktaba Wahhabi

251 - 764
’’کہ اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ۔‘‘[1] اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا: ﴿رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِہِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ [یونس] ’’ اے ہمارے رب!ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ فرمانا کہ آپ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہماالسلام کی مثال ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ فرمانا کہ آپ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے حضرت نوح اور حضرت موسی علیہماالسلام کی مثال ۔یہ بات اس سے بہت بڑھ کر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میری نسبت سے آپ کی وہی منزلت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے حضرت ہارون علیہ السلام کی منزلت ۔ اس لیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابراہیم ‘ حضرت نوح ؛ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام یقیناً حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت بڑے مقام و مرتبہ والے انبیائے کرام علیہم السلام ہیں ۔ اس حدیث میں ان دونوں صحابہ کرام حضرت ابوبکر اورحضرت عمر رضی اللہ عنہما کو ان چار جلیل القدر انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تشبیہ ہر لحاظ سے ہے۔ بلکہ سیاق کلام کی دلالت کے اعتبار سے مقصود صرف یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لطافت طبع اور نرم مزاجی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے طبعی تشدد میں حضرت نوح علیہ السلام کی مانند تھے۔ ایسے ہی یہاں پر [حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہارون علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ صرف اس اعتبار سے دی گئی ہے ]جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے ۔ اوروہ یہ ہے کہ جس طرح ہارون موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں ان کے قائم مقام قرا ر پائے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں آپ کے نائب و خلیفہ تھے۔ یہ استخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے دیگر استخلافات کی مانندہے؛ چہ جائے کہ آپ کے بقیہ استخلافات سے افضل ہو۔کئی بارغزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیا جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کئی گنا زیادہ افضل و بڑھ کر تھے۔ایسی صورت میں وہ لوگ جو دیگر مواقع پر خلیفہ بنائے گئے ‘ ان کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تقدیم یا افضلیت ثابت نہیں ہوتی۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسی نیابت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا موجب ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مدینہ طیبہ میں مختلف لوگوں کو اپنا نائب بنایا۔ آپ کے مقرر کردہ نائبین اس طرح
Flag Counter