تھے جیسے حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہماالسلام کے خلیفہ تھے؛یہ اسی استخلاف کی جنس سے ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا تھا۔ بلکہ باقی استخلافات اس لیے اس سے افضل تھے کہ عام استخلافات میں غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں کی نسبت زیادہ اور افضل لوگ ہوا کرتے تھے۔ اور اس وقت میں مدینہ میں کسی کو نائب بنانے کی ضرورت بھی بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ اس لیے کہ مدینہ پر دشمن کی یورش[حملہ ] کا خوف ہواکرتا تھا۔
تبوک والے سال تمام حجاز کے عرب مسلمان ہوچکے تھے۔ مکہ مکرمہ فتح ہوچکا تھا؛ اسلام کو غلبہ اور قوت حاصل ہوچکی تھی ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ملک ِ شام کے اہل کتاب کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ اس وقت مدینہ میں دشمن سے مقابلہ کرنے والے مجاہدین کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ایک مجاہد کو بھی باقی نہ چھوڑا تھا۔ جیسا کہ باقی تمام غزوات آپ کی عادت مبارکہ تھی کی کچھ مجاہدین کو مدینہ میں باقی چھوڑا کرتے تھے ؛ اس بار آپ نے تمام مجاہدین کو اپنے ساتھ لے لیا تھا‘ کسی ایک کو بھی مدینہ میں باقی نہیں چھوڑا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تخصیص بالذکر لقب کے مفہوم سے ظاہر ہو رہی ہے۔ لقب دو قسم کا ہوتا ہے:
۱۔ وہ لقب جو جنس کی حیثیت رکھتا ہے۔
۲۔ وہ لقب جو عَلَمْ کا قائم مقام ہوتا ہے۔ مثلاًزید؛ و أنت۔ یہ مفہوم نہایت کمزور ہے۔
اسی لیے تمام فقہاء اور علمائے اصول کا نظریہ یہ ہے کہ اس روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔مثال کے طور پر جب یہ کہا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘ تو اس سے باقی رسولوں کی نفی نہیں ہوتی۔لیکن اگر سیاق کلام میں کوئی ایسی چیز ہو جس کا تقاضا تخصیص کا ہو تو پھر صحیح مذہب کے مطابق ایسی روایت سے استدلال کرنا جائز ہوتا ہے ۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ فَفَھَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَ ﴾ [انبیاء ۷۹]
’’ اور ہم نے سلیمان علیہ السلام کو خوب سمجھ عطا کی ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿کَلَّا اِِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ ﴾ [مطففین ۱۵]
’’ہر گز نہیں ‘ بیشک اس دن وہ اپنے رب سے پردہ میں ہوں گے ۔‘‘
ہاں جب تخصیص کی مقتضیٰ سبب کی بنیاد پر ہو تو باتفاق الناس ایسی روایت سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔ یہ روایت بھی اسی ضمن کی روایات میں سے ایک ہے ۔ اس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بطورخاص ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تھے کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ جتنے لوگوں کو خلیفہ یا نائب بنایا گیا تھا ؛ ان میں سے کسی ایک کے بھی ذہن میں یہ بات نہیں آئی [نہ ہی انہوں نے کوئی اعتراض کیا ‘ اور ]نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت پیش آئی کہ وہ دوسرے لوگوں کو اس طرح کی کوئی بات بتائیں ۔پس جب یہاں پر بطور خاص آپ کا تذکرہ کرنے کی وجہ وہ سبب ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ یہ
|