[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے وہ راوی جن کی تم توثیق کرتے ہو ‘ وہ حد سے زیادہ ان راویوں کی جنس سے ہی ہوسکتے ہیں جو جمہور سے روایات نقل کرتے ہیں ؛ لیکن [ایسا ہرگزنہیں ] ۔اہل علم اضطراری طور پر جانتے ہیں کہ یہ راوی جھوٹے کذاب تھے ؛ اور تم ان سے بڑے کذاب اور پرلے درجہ کے جاہل ہو۔ تم پر ان حدیث کے موجب عمل کرنا اور ان کے مطابق فیصلے دینا حرام ہے۔ اس اعتراض پر کئی طرح سے کلام کیا جاسکتا ہے :
٭ پہلی وجہ :شیعہ سے یہ پوچھا جائے کہ: آپ کو یہ علم کیسے حاصل ہوگیا کہ قدیم زمانے میں جن لوگوں نے یہ روایات نقل کی ہے ؛ وہ ثقہ راوی ہیں ۔ کیونکہ آپ نے تو ان لوگوں کو نہیں پایا اور نہ ہی ان کے احوال جانتے ہو۔ اورنہ ہی تمہارے پاس کوئی ایسی قابل اعتماد کتابیں ہیں جن پر اعتماد کرتے ہوئے ضعیف اورثقہ کے مابین فرق کر سکو۔اور نہ ہی تمہارے ہاں اسناد ہیں جن کی بنا پر تم راویوں کی معرفت حاصل کرسکو۔بلکہ تمہارا بہت ساراوہ علم جو کہ تمہارے سامنے موجود ہے ‘ وہ یہود و نصاری کے ہاں موجود علم سے بھی برا ہے ۔بلکہ یہود کے ہاں تو ہلال اور شماس کی وضع کردہ کتابیں موجود ہیں ‘مگر شیعہ کے ہاں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں وہ جمہور پر رد کرسکیں ۔
جب کہ تمہارا یہ عالم ہے کہ جمہور اہل سنت والجماعت ہمیشہ تمہارے راویوں پرایسی کڑی تنقید کرتے رہے ہیں ،[ جس سے شدید تر تنقید کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا]۔جب کہ تمہیں ان کے احوال کے بارے میں کوئی علم نہیں ۔پھر تواتر کے ساتھ اس بات کا علم بھی حاصل ہے جس کاجھٹلانا کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ تمہارے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے لے کر آج تک جھوٹ کی کثرت ہے۔
تمہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ محدثین خوارج سے بغض رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بہت ساری صحیح احادیث بھی روایت کرتے ہیں ۔ جن میں سے بعض احادیث امام بخاری نے نقل کی ہیں ۔ دس روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں ۔ اورمحدثین اس چیز کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو۔ مگر اس کے باوجود خوارج کے ساتھ ان کا بغض انہیں اس بات پر نہیں ابھار سکا کہ یہ لوگ خوارج پر جھوٹ لگائیں ۔ بلکہ انہوں نے خوارج کو آزمایا تو انہیں سچا پایا۔ تمہارا یہ حال ہے کہ محدثین ‘ فقہاء؛ عام مسلمان ؛ تاجر؛ عوام الناس ؛ اور لشکری وغیرہ جن لوگوں نے بھی تمہارے ساتھ میل جول رکھا ؛ اور تمہیں جدید یا قدیم دور میں آزمایا ؛ اس نے تمہارے گروہ کو تمام گروہوں سے بڑا جھوٹا اور کذاب گروہ پایا۔ اگر ان میں کوئی ایک سچا ہوبھی تو دوسرے فرقوں میں ان سے زیادہ سچے موجودہوتے ہیں ۔ اگر دوسرے فرقوں میں کوئی ایک جھوٹا ہو تو شیعہ میں سب سے زیادہ جھوٹے ہوتے ہیں ۔یہ بات کسی بھی عقلمند منصف پر مخفی نہیں ہے۔ہاں جو کوئی اپنے خواہش نفس کی پیروی کرے تو یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے دلوں کو اندھا کردیا ہوتاہے۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے انہیں کوئی راہ ہدایت پر لانے والا رہبر نہیں ملتا۔
یہ باتیں جو ہم نے ذکر کی ہیں ؛ قدیم و جدید میں اہل علم کے ہاں معروف رہی ہیں ۔جیسا کہ ہم نے اس سلسلہ میں بعض اقوال بھی نقل کیے ہیں ۔ یہاں تک کہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
|