Maktaba Wahhabi

675 - 764
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ!میرے (ماں )باپ آپ پر فدا ہوں جائیں یہاں تو صرف آپ کی گھر والی ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے بھی رفاقت کا شرف عطا ہو ؟ آپ نے فرمایا: ہاں (رفیق سفر تم ہو گے)۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے (ماں ) باپ آپ پر قربان! میری ایک اونٹنی آپ لے لیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہم تو بقیمت لیں گے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر ہم نے ان دونوں کے لیے جلدی میں جو کچھ تیار ہو سکا تیار کردیا اور ہم نے ان کے لیے چمڑے کی ایک تھیلی میں تھوڑا سا کھانا رکھ دیا۔ اسما بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے ازار بند کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس تھیلی کا منہ اس سے باندھ دیا اسی وجہ سے ان کا لقب(ذات النطاقین)دو ازاربند والی ہوگیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ جبل ثور کے ایک غار میں پہنچ گئے ۔اور اس میں تین دن تک چھپے رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ جو نوجوان ہشیار اور ذکی لڑکے تھے آپ حضرات کے پاس رات گزارتے اور علی الصبح اندھیرے منہ ان کے پاس سے جا کر مکہ میں قریش کے ساتھ اس طرح صبح کرتے جیسے انہوں نے یہیں رات گزاری ہے۔اور قریش کی ہر وہ بات جس میں ان دونوں حضرات کے متعلق کوئی مکر و تدیبر ہوتی یہ اسے یاد کرکے جب اندھیرا ہوجاتا تو ان دونوں حضرات کو آکر بتا دیتے تھے ۔اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ ان کے پاس ہی دن کے وقت بکریاں چراتے اور تھوڑی رات گئے۔وہ ان دونوں کے پاس بکریاں لے جاتے اور یہ دونوں حضرت ان بکریوں کا دودھ پی کر اطمینان سے رات گزارتے۔ حتی کہ عامر بن فہیرہ صبح اندھیرے منہ ان بکریوں کو ہانک لے جاتے اور ان تین راتوں میں ایسا ہی کرتے رہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے (قبیلہ)بنو دیل کے ایک آدمی کو جو بنی عبد بن عدی میں سے تھا مزدور رکھا وہ بڑا واقف کار رہبر تھا اور آل عاص بن وائل سہمی کا حلیف تھا۔ اور قریش کے دین پر تھا ان دونوں نے اسے امین بنا کر اپنی دونوں سواریاں اس کے حوالہ کردیں اور تین راتوں کے بعد صبح کو ان دونوں سواریوں کو غار ثور پر لانے کا وعدہ لے لیا(چنانچہ وہ حسب وعدہ آ گیا)۔اور ان دونوں حضرات کے ساتھ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور رہبر ان کو ساحل کے راستہ پر ڈال کر لے چلا۔‘‘ ابن شہاب نے فرمایا:’’ سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کے بھتیجے عبدالرحمن بن مالک مدلجی نے بواسطہ اپنے والد کے سراقہ بن جعشم سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں : ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آ پڑے (جو اعلان کر رہے تھے)کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتل کردے یا پکڑ لائے تو اسے ہر ایک کے
Flag Counter