ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری عورتیں گمراہ نہ ہو جائیں اس لیے ان کے پاس جا کر کہو کہ اگر وہ اپنے گھر کے اندر اپنے رب کی عبادت پر اکتفا کرتے ہیں تو کریں اور اگر اس کو اعلانیہ کرنے سے انکار کریں تو ان سے کہو کہ تمہارا ذمہ واپس کر دیں ۔ اس لیے کہ ہمیں پسند نہیں کہ ہم تمہاری امان کو توڑیں اور نہ ہم ابوبکر کو اعلانیہ عبادت کرنے پر قائم رہنے دے سکتے ہیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ:’’ ابن دغنہ ابوبکر کے پاس آیا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذمہ ایک شرط پر لیا تھا، یا تو اسی پر اکتفا کرو یا میرا ذمہ مجھے واپس کر دو۔ اس لیے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب اس بات کو سنیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے ذمہ میں لیا تھا، اور میرا ذمہ توڑا گیا۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ میں تیرا ذمہ تجھے واپس دیتا ہوں اور اللہ کی پناہ پر راضی ہوں ۔‘‘
اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھایا گیا ہے، میں نے ایک کھاری زمین دیکھی، جہاں کھجوروں کے درخت ہیں اور دو پتھر یلے کناروں کے درمیان ہے جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی، جس نے بھی ہجرت کی مدینہ ہی کی طرف کی اور جو لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے وہ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی تیاری کی، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تم ٹھہرو مجھے امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کا حکم ہوگا۔‘‘
ابوبکر نے عرض کیا:’’ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا! آپ کو امید ہے کہ اس کی اجازت ملے گی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ چلنے کے لیے رک گئے اور دو اونٹ جو ان کے پاس تھے ان کو چار مہینے تک سمر کے پتے کھلاتے رہے۔
ابن شہاب بواسطہ عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ:
ہم ایک دن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان میں ٹھیک دوپہر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کہنے والے نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا(دیکھو)وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پر چادر ڈالے ہوئے تشریف لا رہے ہیں ۔ آپ کی تشریف آوری ایسے وقت تھی جس میں آپ کبھی تشریف نہ لاتے تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان اللہ کی قسم!ضرور کوئی بات ہے جبھی تو آپ اس وقت تشریف لائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی آپ کو اجازت مل گئی آپ اندر تشریف لائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اپنے پاس سے اوروں کو ہٹا دو۔‘‘
|