Maktaba Wahhabi

270 - 764
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اس روایت کے جھوٹ ہونے کا علم بھی ہو؛ اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے نفس کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے ؛ اس کے جھوٹ یا سچ پر تحقیق ہی نہ کی ہو۔ اگروہ اس کی تحقیق کرتا تو اس پر اس روایت کا جھوٹ ہونا واضح ہوجاتا۔اس کے باوجود جن لوگوں نے اسے روایت کیا ہے ان کے الفاظ میں :’’خلیفۃ من بعدی‘‘ میرے بعد خلیفہ ہوگا ؛ کے الفاظ نہیں ہیں ۔ بلکہ وہاں پر یہ الفاظ ہیں : ’’ وخلیفتي في أھلي۔‘‘ ’’میرے اہل خانہ میں میرا جانشین ہوگا۔‘‘یہ ایک خاص استخلاف ہے۔ جب کہ دوسرے الفاظ جوکہ ابن عدی نے روایت کیے ہیں ‘ وہ یوں ہیں :آپ فرماتے ہیں : ’’حدثنا ابن ابی سفیان ‘ حدثنا عدی ابن سہل ؛ حدثنا عبیداللہ بن موسیٰ ؛حدثنا مطر عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : علي أخی وصاحبي و ابن عمي ؛ خیر من أترک من بعدي ؛ یقضي دیني و ینجز موعدي ۔‘‘ ’’ بیشک علی میرا بھائی اور میرا دوست اورمیرے چچا کا بیٹا ہے۔میرے بعد ان لوگوں میں سے بہترین انسان جنہیں میں چھوڑے جارہا ہوں ۔یہ میراقرض ادا کرے گا اور میرے وعدے پورے کرے گا۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مطر نامی راوی انتہائی جھوٹا ہے۔ اس کے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کے باوجود اہل کوفہ میں سے کسی ایک نے بھی اس سے حدیث روایت نہیں کی ۔نہ ہی اس سے یحی بن سعید القطان نے روایت کیا ہے ؛ نہ ہی وکیع نے ‘ نہ ہی ابومعاویہ نے ؛ نہ ہی ابو نعیم نے؛نہ ہی یحی بن آدم اور ان کے امثال دوسرے محدثین نے۔حالانکہ اس وقت کوفہ میں کثرت کے ساتھ شیعہ موجود تھے۔ اور وہاں کے بہت سارے عوام ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے تھے۔ اور ان کی احادیث اصحاب کتب ستہ نے روایت کی ہیں ۔ یہاں تک کہ ترمذی اور ابن ماجہ ضعفاء تک سے روایت کرتے ہیں ؛ مگر انہوں نے اس انسان سے روایت نقل نہیں کی۔ بیشک یہ روایت عبیداللہ بن موسیٰ نے اپنی خواہش نفس کی وجہ سے اس لیے نقل کی ہے کہ وہ شیعیت کی طرف میلان رکھتا تھا ۔اور اس طرح کے لوگوں سے ایسی روایات نقل کرلیا کرتا تھا بھلے وہ جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ جیسے محدث نے عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت نقل نہیں کی؛ بخلاف عبدالرزاق کے ۔ امام احمد فرماتے ہیں : ’’ بیشک عبید اللہ اپنے پاس موجود چیز کااظہار کرلیا کرتا تھا بخلاف عبدالرزاق کے۔ ایسے ہی جو روایات اس مطر نامی راوی نے اپنی طرف سے گھڑلی ہیں ان میں سے وہ روایات بھی ہیں جو ابوبکر خطیب نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہیں ؛ ان میں عبیداللہ بن موسیٰ کی روایت بھی ہے جسے وہ مطر سے اوروہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے آپ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا؛ توفرمایا: ’’ میں اور یہ [یعنی علی] بروز قیامت اپنی امت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہوں گے ۔‘‘
Flag Counter