تم نے قیامت کھڑی کر رکھی ہے ۔ [پس اس کا باطل ہونا واضح ہے]۔
٭ دوسرا جواب : تمام اہل علم محدثین کا اس روایت کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے۔ اس سے پہلے ابن حزم رحمہ اللہ کی وضاحت گزر چکی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :’’ ان ساری من گھڑی روایات کو ہر وہ انسان جانتا ہے جسے علم حدیث اور راویوں کے احوال کے ساتھ کوئی ادنی شغف بھی ہو۔‘‘ آپ نے یہ بات بالکل سچ ارشاد فرمائی ہے ۔ اس لیے کہ جس انسان کو صحیح اور ضعیف حدیث کی ادنی سی معرفت بھی ہو وہ جانتاہے کہ مذکورہ بالااور اس کی مانند دوسری روایات ضعیف ہیں ۔بلکہ اکثر جھوٹ اورمن گھڑت ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی کوئی روایت کسی ایسے محدث نے اپنی ان کتابوں میں روایت نہیں کی جنہیں حجت سمجھا جاتاہے۔ ایسی روایات ان لوگوں نے نقل کی ہیں جو اپنی کتابوں میں موٹی اور پتلی[صحیح اورضعیف ] ہر قسم کی روایات جمع کرتے ہیں ۔جن کے بارے میں اہل علم جانتے ہیں کہ ان میں بہت زیادہ باتیں جھوٹ ہیں ۔جیسے کتب تفاسیر میں سے : تفسیر ثعلبی؛ تفسیر واحدی اوران جیسی دیگر تفاسیر۔ اور فضائل کی کتابوں میں سے جو ہر قسم کی روایات جمع کرتا ہے ان میں خصوصی طور پر خطیب خوارزمی قابل ذکر ہے ۔ جھوٹی روایات ذکر کرنے میں خطیب صاحب لوگوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ خطیب صاحب اورمغازلی کو علوم حدیث میں مہارت نہیں ہے [اسی وجہ سے وہ ہر قسم کی روایات جمع کرتے رہتے ہیں ]۔
محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کتاب الموضوعات میں یہ روایت ابو حاتم بستی سے نقل کی ہے ؛ وہ کہتا ہے: ہم سے محمد بن سہل بن ایوب نے حدیث بیان کی اورکہا : ہم سے عمار بن رجاء نے بیان کیا اور کہا: ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حدیث بیان کی اور کہا: ہم سے مطر بن میمون نے روایت بیان کی وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بیشک علی بن ابی طالب میرا بھائی، میرا وزیر، میرے کنبہ میں جانشین ؛میرے بعد بہترین انسان جسے میں چھوڑے جا رہا ہوں ؛میرے بعد میرے قرض کو اداکرنے والا اورمیرے وعدوں کوپورا کرنے والا ہے۔‘‘
[ابن جوزی فرماتے ہیں :] یہ روایت موضوع ہے۔ محدث ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ مطر بن میمون نامی راوی ثقہ لوگوں کے نام لیکر موضوعات روایت کرتا ہے، اس سے روایت کرنا حلال نہیں ۔‘‘
ابن عدی کے واسطہ سے بھی یہ روایت اسی طرح بیان کی گئی ہے۔ اس روایت کا مدار مطر نامی راوی پر ہے، اس میں ’’ خلیفتی و وصیی‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں ۔ بلکہ ’’خلیفتی فی أہلی ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔
اسی طرح کے الفاظ میں یہ روایت احمد بن عدی سے بھی روایت کی گئی ہے۔ اس کی سند کا مدار عبیداللہ بن موسیٰ کی مطربن میمون سے روایت پر ہے۔ خود عبید اللہ بن موسیٰ صدوق[سچا]ہے ؛ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے؛ مگر یہ شیعیت میں معروف ہے۔اور اپنی شیعیت کی وجہ سے غیر ثقہ لوگوں سے بھی ایسی روایات نقل کرتا تھا جو اس کی خواہشات نفس کے مطابق ہوں ۔‘‘ جیسا کہ اس نے مطر بن میمون سے یہ روایت نقل کی ہے۔ حالانکہ یہ محض جھوٹ ہے۔
|