Maktaba Wahhabi

169 - 764
اس طرح کے جاہل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو روایات بخاری اور مسلم میں ہیں ؛ وہ ہم امام بخاری اور امام مسلم سے لیتے ہیں ۔ جیسے کہ ابن الخطیب اور ان دوسرے لوگوں کا خیال ہے جن کو حقیقت حال کا کوئی علم نہیں ۔ اور یہ خیال کرتے ہیں کہ امام بخاری اور مسلم غلط باتیں پھیلایا کرتے تھے؛ اور جان بوجھ کر جھوٹ بولا کرتے تھے۔اور انہیں اس بات کا علم نہیں کہ جب ہم کہتے ہیں : بخاری ومسلم [نے یہ روایت ذکر کی ہے ] تو ہمارے پاس ایسی نشانیاں موجود ہیں جو اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں ۔ اس سے مراد ہر گزیہ نہیں ہوتی کہ صرف بخاری اور مسلم کے روایت کرلینے سے وہ روایت صحیح اورثابت ہوجاتی ہے۔بلکہ بخاری ومسلم کی روایات ان کے علاوہ اتنے علماء اورمحدثین نے روایت کی ہیں جن کی صحیح تعداد کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ان میں سے کوئی بھی روایت کرنے میں یہ دونوں امام منفرد نہیں ہیں ؛ بلکہ ان سے پہلے اور ان کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی لوگوں کی جماعتوں نے انہیں روایت کیا ہے۔ اگر امام بخاری و مسلم نہ بھی پیدا ہوتے تب بھی اللہ کے دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔اور یہ احادیث اپنی اسانید کے ساتھ موجود ہوتیں ؛ جس سے مقصد حاصل ہوسکتا تھا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے تو یہ بالکل اس قول کی طرح ہوتا ہے جب ہم کہتے ہیں : قرأت سبعہ میں یوں ہے۔ قرآن تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ ان ساتوں قراء کے ساتھ اس میں سے کوئی بھی چیز خاص نہیں ہے۔ ایسے ہی حدیث کی تصحیح کا مسئلہ بھی ہے۔ أئمہ حدیث نے اس بارے میں بخاری و مسلم کی تقلید نہیں کی۔بلکہ وہ جمہور روایات جن کو ان دونوں حضرات نے صحیح کہا ہے ؛ وہ ان سے پہلے ائمہ حدیث کے ہاں صحیح اور قابل قبول تھیں ۔ او رایسے ہی ان کے زمانے میں بھی او ران کے بعد بھی اس فن کے ائمہ نے ان کی کتابوں کامطالعہ کیا : اور ان کی تصحیح پر موافقت کااظہار کیا ؛ سوائے چند ایک مواقع کے؛ جو کہ تقریباً بیس احادیث ہیں ؛ ان میں سے بھی زیادہ مسلم شریف میں ہیں ۔ ان پر حفاظ حدیث نقاد نے جرح کی ہے۔ ان میں سے ایک گروہ نے امام مسلم و بخاری کی اور ایک گروہ نے تنقید کرنے والوں کی تائیدکی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں بعض مواقع بلا ریب تنقید کے قابل ہیں ۔مثلاً ام حبیبہ کی حدیث ؛ اور یہ حدیث کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا کیا؛ اور یہ کہ چاند گرہن کی نماز میں تین رکوع یا اس سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ یہ صحیح مسلم کی بات ہورہی ہے ۔ جب کہ بخاری ان دونوں کتابوں میں تنقید سے مبراء ہے۔ آپ کوئی لفظ بھی بہت ہی کم ایسا روایت کرتے ہیں جس پر تنقید ہوسکتی ہو۔ اگر ایسا لفظ روایت بھی کریں تو ساتھ ہی دوسرا لفظ بھی روایت کرلیتے ہیں جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس حدیث پر تنقید ہوئی ہے۔ آپ کی کتاب میں کوئی لفظ ایسا نہیں آیا جس پر تنقید ہوئی ہو مگر آپ نے دوسری جگہ پر ایسے الفاظ نہ لائے ہوں جن سے اس کا منتقد ہونا ظاہر نہ ہوتا ہو۔ جملہ طور پر جو کوئی سات ہزار درہم کو پرکھے؛ اور اسے چند ایک کے علاوہ کوئی کھوٹا سکہ نہ ملے؛ اور یہ بھی ایسا کھوٹا نہیں جو صرف دھوکہ بازی سے ان میں داخل کردیا گیا ہو؛ مگر ان میں محض تبدیلی ہوئی ہے۔ پس ایسا انسان اپنے فن کا امام
Flag Counter