ہے۔ ان دونوں کتابوں میں سات ہزار سے کچھ کم احادیث موجود ہیں ۔
مقصود یہ ہے کہ ان حضرات کی روایت کردہ احادیث کو ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی اس فن کے ماہرین نے جانچ پرکھ کے میزان سے گزارا ہے ؛ اوران پر تنقید و بحث کی ہے۔اور ان احادیث کو اتنی خلقت نے روایت کیا ہے جن کی تعداد کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔پس یہ ائمہ نہ حدیث کے روایت کرنے میں منفرد ہیں ‘اور نہ ہی اس کو صحیح کہنے میں ۔
خلاصہ کلام ! اللہ تعالیٰ ہی اس دین کی حفاظت کا ذمہ دار ہے ؛ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾
’’بیشک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے ‘اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘
بھی اسی طرح ہے جس طرح کے مسائل مذاہب ائمہ پر تصنیف شدہ فقہ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ قدوری؛ التنبیہ؛ الخرقی؛ الجلاب۔ ان میں غالب طور پر یہ ہوتاہے کہ جب کہا جائے کہ : فلاں نے ذکر کیا ہے؛ تو اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس امام کا یہ مذہب ہے ۔ اور یقیناً یہ اس کے سارے اصحاب نے نقل کی ہے۔ اور یہ مخلوق کی اتنی زیادہ تعداد ہوتی ہے جو کہ اس امام کے مذہب کو تواتر کے ساتھ نقل کرتے ہیں ۔
ان کتابوں میں ایسے مسائل بھی ہیں جن میں بعض اہل مذہب منفرد ہوتے ہیں ۔اور اس میں ان کے مابین نزاع بھی ہوتا ہے۔لیکن اکثر طور پر یہ اہل مذہب کا قول ہوتا ہے۔ جب کہ بخاری اور مسلم میں اکثر روایات پر تمام اہل علم محدثین کا اتفاق ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا بہت زیادہ اہتمام کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی معرفت اتباع ائمہ کی ائمہ کے الفاظ سے معرفت کی نسبت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ اور علمائے حدیث الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد سے؛ اتباع ائمہ کی ائمہ کے الفاظ و مقاصد سے زیادہ واقف کار ہوتے ہیں ۔ اور محدثین کے مابین تنازع ائمہ کے مقلدین کے مابین تنازع کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔
رافضہ کی جہالت کی وجہ سے ان کا یہ حال ہے کہ جب کسی نسخہ میں کوئی ایک چیز دیکھتے ہیں ؛ تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات ان اہل پر مخفی ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس دین کی حفاظت فرمارہے ہیں ؛ پس وہ [ان میں اپنی من مانی تحریف کرنے لگ جاتے ہیں ]اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل بنانا شروع کردیتے ہیں ۔‘‘
چوتھی بات:....لوگوں میں تواتر کے ساتھ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ مرتدین کے ساتھ قتال کرنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ نے ہی مسیلمہ کذاب اور اس کے اتباع کار قبیلہ بنو حنیفہ اور اہل یمامہ سے جنگ کی تھی؛ مسیلمہ نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ تھی۔ اور آپ نے ہی طلیحہ اسدی سے جنگ کی جس نے نجد کے علاقہ میں نبوت کا دعوی کیا تھا۔بنو تمیم ؛ بنو اسد اور بنوغطفان نے اس کی اطاعت گزاری شروع کردی تھی۔ ایسے ہی سجاع نامی ایک عورت نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا ؛ پھر اس نے مسیلمہ کذاب کے ساتھ شادی کرلی ؛ یوں جھوٹا اورجھوٹی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
|