Maktaba Wahhabi

171 - 764
عربوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دین اسلام سے مرتد تو ہوگئے تھے مگر انہوں نے کسی جھوٹے نبی کی اتباع نہیں کی۔ اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو شہادتین کا تو اقرار کرتے تھے مگر احکام شریعت کا انکار کرتے تھے ؛ جیسے کہ مانعین زکواۃ۔ ان لوگوں کے قصے اتنے متواتر اور مشہور ہیں کہ اس باب میں ادنی معرفت رکھنے والا بھی ان کا علم رکھتا ہے۔ مرتدین سے جنگ کرنے والے ہی وہ لوگ تھے جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے تھے۔ وہ اس آیت کی تفسیر میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔ ایسے ہی وہ تمام لوگ جنہوں نے اہل روم و فارس سے قتال کیا ؛ وہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے رفقاء اور اہل یمن اور دوسرے لوگ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’ اس کی قوم کے لوگ ہیں ۔‘‘ [1] یہ بات تواتر کے ساتھ مشہور اور یقینی طور پر معلوم شدہ ہے کہ جولوگ فتنہ ارتداد کے وقت دین اسلام پر ثابت قدم رہے اور جنہوں نے کفار و مرتدین سے قتال کیا وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں شامل ہیں :[فرمان الٰہی ہے]: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ﴾ [آل عمران۵۴] ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے(تو پھر جائے)اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہو ں گے ، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔‘‘ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اللہ سے محبت کرتے ہیں ‘ اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے ؛ لیکن آپ میں یہ صفت حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سے زیادہ نہیں پائی جاتی ۔اور نہ ہی آپ کا کفار و مرتدین کے ساتھ جہاد ان حضرات کے جہاد سے بڑھ کر تھا؛ اور نہ ہی آپ کی وجہ سے دین کے لیے کوئی ایسی مصلحت حاصل ہوئی جو ان تینوں خلفاء کے ذریعہ حاصل ہونے والی مصلحت سے بڑھ کر ہو۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کی کوششیں قابل ِ صد شکر گزاری ہیں ۔ان کے نیک اعمال کے اچھے اثرات اسلام میں موجود ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ انہیں اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے ان اعمال پر جزائے خیر عطا فرمائے۔یہ حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور ائمہ رشد و ہدایت ہیں ۔جوحق کے مطابق چلتے تھے اور عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔ اس کے برعکس اگر کوئی ائمہ اہل سنت والجماعت جن کی وجہ سے دین و دنیا میں بہت بڑافائدہ حاصل ہوا ؛ان کو کافر و فاسق اور ظالم کہے ؛اور پھر ایسے انسان کی طرف آئے ؛ جس کی وجہ سے دین و دنیا کا کوئی ایسا فائدہ حاصل نہیں ہوا جیسا
Flag Counter