ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہی سن ۹ھجری کا حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کروایا۔ پھر شیعہ کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو واپس بلا لیا تھا؟ البتہ مشرکین سے کیے ہوئے معاہدوں کے اختتام کا اعلان کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا تھا۔[1]
اس لیے کہ عربوں کے یہاں رسم تھی کہ عہد باندھنے یا توڑنے کا کام حاکم خود کرتا یا اس کے اہل بیت میں سے کوئی شخص یہ کام انجام دیتا۔ہر ایک سے اس کی بات قبول نہیں کرلیتے تھے۔ [بنا بریں اعلان براء ت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا]۔
٭ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے امیر حج ہونے کے دن بزمرہ موذنین بھیجا تاکہ ہم منی میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ(ہو کر) طواف کرے۔‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورت برات کا اعلان کریں ، علی رضی اللہ عنہ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منی میں لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوی برہنہ(ہو کر)کعبہ کا طواف کرے۔‘‘[صحیح بخاری:ح 362]
٭ آپ فرماتے ہیں : پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کا عہد اس سال واپس کردیا۔حجۃ الوداع کے سال جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا ‘ تو اس سال کسی بھی مشرک نے حج نہیں کیا۔
ابو محمد ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ حج میں جو کچھ ہوا اس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بہت بڑے فضائل ہیں ۔ اس لیے کہ اس سال اس عظیم الشان اجتماع سے آپ نے ہی خطاب کیا ۔اورلوگ خاموشی سے آپ کا خطبہ سنتے رہے۔ آپ کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کی جملہ رعیت میں سے ایک تھے۔ اس سورت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان اور غار کاذکرہے۔ سو یہ سورت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر لوگوں کو
|