Maktaba Wahhabi

486 - 764
٭ پہلی بار :....حضرت جابرو ابو سعید رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ ایک دفعہ جبرائیل نازل ہو کراللہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے۔جب وحی نے آپ کو ڈھانک لیاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ران پر سر رکھے لیٹے رہے، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشارہ سے عصر کی نماز ادا کی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دعا کیجیے کہ اﷲتعالیٰ سورج کو لوٹا دے تاکہ آپ کھڑے ہو کر عصر کی نماز پڑھ سکیں ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے آفتاب واپس آگیا اور آپ نے عصر کی نماز پڑھی۔ ٭ دوسری مرتبہ:....رجوع آفتاب کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ بابل کے مقام پر دریائے فرات کو عبور کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے رفقا اپنے مویشیوں کے ساتھ مصروف ہو گئے۔ اسی دوران آپ نے چند ساتھیوں کے ساتھ نماز عصر ادا کر لی، جو ساتھی نماز ادا نہ کر سکے تھے جب انھوں نے شکوہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رجوع آفتاب کے لیے دعا کی۔ چنانچہ سورج لوٹ آیا۔ سعید حمیری نے یہ واقعہ نظم میں بیان کیا ہے: رُدَّتْ عَلَیْہِ الشمس لَمَّا فَاتَہٗ وَقْتُ الصَّلٰوۃِ وَ قَدْ دَنَتْ لِلْمَغْرِبِ حَتّٰی تَبَلَّجَ نُوْرُہَا فِیْ وَقْتِہَا لِلْعَصْرِ ثُمَّ ہَوَتْ ہُوَیَّ الْکَوْکَبِ وَ عَلَیْہِ قَدْ رُدَّتْ بِبَابِلَ مَرَّۃً اُخْرٰی وَ مَا رُدَّتْ لِخَلْقٍ مَغْرَبٖ ’’جب آپ کی نماز عصر کا وقت فوت ہوگیا اور مغرب کا وقت قریب آگیا۔ یہاں تک کہ سورج کا نور اپنے وقت عصر کے مطابق چمک گیا۔پھر ستاروں کی طرح اتر گیا۔ اور آپ کے لیے ہی شہر بابل میں ایک بار پھر سورج کو لوٹایا گیا تھا؛ حالانکہ غروب ہونے کے بعد کسی پر سورج کو لوٹایا نہیں جاتا۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضل و کمال پر جو یقین ہمیں حاصل ہے،وللہ الحمد ۔اور یہ فضل و منزلت ایسی اسناد کے ساتھ ثابت ہے جو علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں ۔ان اسناد کی موجودگی میں کوئی اس دروغ گوئی کا محتاج نہیں ۔ عہد رسالت میں رجوع آفتاب کا واقعہ طحاوی رحمہ اللہ اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے بالفاظ دیگر نقل کیا ہے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ شمار کیا ہے۔ مگرمحققین اہل علم اور ماہرین فن جانتے ہیں کہ یہ واقعہ صحیح نہیں ۔یہ روایت ابن الجوزی رحمہ اللہ نے موضوعات نقل کی ہے‘اس نے ابو جعفر العقیلی کی کتاب الضعفاء سے عبیداللہ بن موسیٰ کی سند روایت کی ہے۔ اس نے فضیل بن مزروق سے اور اس نے ابراہیم بن الحسن بن حسن سے اس نے فاطمہ بنت حسین سے اس نے اسماء بنت عُمیس رضی اللہ عنہا سے نقل کیاہے کہ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی جا رہی تھی اور آپ کا سرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غروب آفتاب تک عصر کی نماز ادا نہ کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’اے علی ! کیا نماز پڑھ لی ہے ؟‘‘ تو انہوں نے عرض کی : نہیں ۔اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اﷲ! بیشک علی تیری اور تیرے رسول کی
Flag Counter