قائم کرتے ہیں ، وہ بھی معادات کی ضد ہے۔ دوستی لگانے کا یہ حکم سب مومنوں کے لیے ہے۔ بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ مومن ہیں اور وہ باقی مومنوں سے دوستی رکھتے ہیں ۔[اور اہل ایمان ان سے دوستی رکھتے ہیں ]۔
اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے باطنی ایمان کا اثبات و اقرار ہے ۔ اور اس بات کی گواہی موجود ہے کہ آپ ظاہری و باطنی طور پر دوستی کے مستحق ہیں ۔ بنا بریں اس حدیث میں آپ رضی اللہ عنہ کے دشمنان خوارج و نواصب کی تردید پائی جاتی ہے۔ حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا مومنوں کا کوئی دوست ہی نہیں ۔اور ایسا کیسے ہوسکتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے دوست ہیں ۔ جن میں نیک و کار اہل ایمان شامل ہیں ۔ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بدرجہ اولی شامل ہیں ۔اور تمام اہل ایمان آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ قبیلہ مسلم و غفار و جہینہ و مزینہ اور قریش و انصاریہ سب میرے دوست ہیں ۔ اﷲ و رسول کے سوا ان کا کوئی دوست نہیں ۔‘‘[1]
فی الجملہ ولی ؛ مولی اور والی کے مابین فرق پایا جاتا ہے ۔ پس وہ ولایت جس کا معنی دوستی کا ہے[اور جس کا الٹ دشمنی ہوتی ہے] وہ ایک علیحدہ چیز ہوتی ہے ؛ جب کہ وہ ولایت جس کا معنی حکومت و امارت ہے وہ ایک علیحدہ چیز ہے ۔
اس حدیث میں وارد ولایت پہلے معنی یعنی دوستی کے مفہوم میں ہے؛ دوسرا معنی مراد نہیں ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں ارشاد فرمایا کہ : ’’ من کنت والیہ فعلي والیہ ۔‘‘’’جس کا میں والی ہوں علی بھی اس کا والی ہے۔‘‘رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک :’’ من کنت مولاہ فہذا علي مولاہ۔‘‘’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے ‘‘ سے یہی مراد ہے ۔ اس مولی سے والی مراد لینا باطل ہے ۔ اس لیے کہ ولایت دونوں اطراف سے ثابت ہوتی ہے ؛ جیسے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کے ولی اور اس کے دوست ہیں ‘ اور اللہ تعالیٰ ان کا ولی اور دوست ہے ۔
رہا مسئلہ اپنے نفوس سے بڑھ کر عزیز ہونا تو یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر اہل ایمان کے لیے اس کی جان و مال سے بڑھ کر محبوب ہونا یہ نبوت کے خصائص میں سے ہے ۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو بذریعہ نص خلیفہ متعین کیا تھا؛ تو اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ خلیفہ اہل ایمان کو ان کی جانوں سے بڑھ کر محبوب ہو۔ یہ بات کسی ایک نے بھی نہیں کہی ۔ اور نہ ہی کسی ایک سے منقول ہے۔ اور اس کا معنی بھی یقینی طور پر باطل ہے ۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل ایمان کے لیے ان کی جانوں سے بڑھ کر محبوب ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور موت کے بعد بھی ثابت ہے ۔ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی بات ہے ۔ آپ کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے
|