کئی ایک علماء ؛- جن میں زبیر ابن بکار رحمہ اللہ بھی شامل ہیں -نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام آپ کے جواب کا بھی ذکر کیا ہے کہ؛ جب آپ بصرہ کا مال لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سخت قسم کا خط لکھا۔تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو جواب دیا ؛ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’جو کچھ میں نے کیا ہے ؛ وہ اس سے بہت کم ہے جو تم نے کیا ہے؛ تم نے اپنی امارت میں مسلمانوں کا خون ناحق بہایا ہے ۔‘‘
تیسری بات :....علاوہ ازیں صرف ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾میں مدح کا کوئی پہلو موجود نہیں ۔کیونکہ کئی ایک مواقع پر اللہ تعالیٰ یہی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اہل ایمان کو معتوب کرتے ہیں ۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَoکَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴾
’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔‘ ‘
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت کے رئیس و امیر ہیں تو آپ اس عتاب میں بھی داخل ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انکار و مذمت کی ہے۔[ لہٰذا اس سے تمہاری وہ روایت غلط ٹھہری کہ علی کا ذکر ہمیشہ مدحیہ انداز میں کیا ہے]۔
نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃ﴾
(الممتحنۃ:۱)
’’اے مؤمنو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ؛ تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو۔‘‘
یہ صحاح ستہ میں ثابت شدہ بات ہے کہ یہ آیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی۔جب آپ نے مشرکین مکہ کو خط لکھا۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ اس عورت کو پکڑ لائیں جس کے پاس یہ خط موجود ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی سے بری ہیں ۔توپھر آپ اس میں مخاطب ان لوگوں کا سردار کیسے کہا جاسکتا ہے جن کی غلطی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ملامت کی تھی۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ﴾
|