’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں ؛تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو....‘‘
یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مال غنیمت کے ساتھ ایک آدمی کوپایا؛ اس نے کہا : میں مسلمان ہوں ؛ ان لوگوں نے اس کی بات کو سچا نہ مانا؛ اور اس سے مال غنیمت چھین لیا۔تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ بات کو واضح اور ثابت ہوجانے دیا کریں ۔اور انہیں دنیاوی مال کی وجہ سے کسی بھی اسلام کے مدعی کی تکذیب کرنے سے منع کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کی غلطی سے بری ہیں ۔تو پھر کیسے کہاجاسکتا ہے کہ آپ ان کے سردار ہیں ۔ اس کے امثال و نظائر بہت ہیں ۔
چوتھی بات:....اس قسم کے الفاظ میں سب اہل ایمان شامل ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی اس خطاب کا سبب ہوسکتا ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ لفظ اسکو بھی ایسے ہی شامل ہوتا ہے جیسے اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کوشامل ہوتا ہے۔اس آیت کے الفاظ میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر اہل ایمان کے مابین فرق کیا جاسکے۔
پانچویں بات :....بعض لوگوں کا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ کہنا کہ : آپ اس آیت کے سردار ہے ؛ یا اس آیت کے امیر ہیں یا اس طرح کے دیگر کلمات کہنا؛ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ وہ صحابی اس آیت کا پہلا مخاطب ہے تو پھر یہ ایک دوسری بات ہے۔اس لیے کہ آیت میں خطاب تمام مخاطبین کو یکساں طور پر شامل ہوتا ہے۔ان میں سے بعض کو بعض پر شمول خطاب کی وجہ سے ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ : آپ [یعنی حضرت علی] نے سب سے پہلے اس آیت پر عمل کیا ہے ۔ تو پھر بھی معاملہ ایسے نہیں ہے۔ بعض آیات ایسی ہیں جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے دوسرے لوگوں نے عمل کیا اور بعض ایسی بھی ہیں جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عمل کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت کا دوسرے لوگوں کو شامل ہونا ؛ یا کسی دوسرے کا اس پر عمل کرنا آپ کے ساتھ مشروط ہے ۔جیسا کہ جمعہ میں امام ہوتا ہے ۔ تو پھر بھی بات ایسے نہیں ہے۔اس لیے کہ خطاب کے بعض افراد کو شامل ہونے میں دوسرے لوگوں کو شامل ہونے کی شرط نہیں ہوتی ۔اور نہ ہی لوگوں پر آیت کے مطابق عمل کرنا کا وجوب دوسرے لوگوں پر واجب ہونے کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ آپ ان لوگوں میں سب سے افضل ہیں جو آیت سے مراد ہیں ۔اگر آپ کا افضل ہونا ثابت ہوجائے تو پھر اس آیت سے استدلال کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور اگر ایسا کچھ ثابت نہ ہو ؛ تو پھر اس آیت سے استدلال کرنا جائز نہیں رہتا۔ پس دونوں لحاظ سے اس آیت سے استدلال کرنا باطل ٹھہرا۔
آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے ؛ حالانکہ یہ بات بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر جھوٹ ہے ؛ اور آپ سے معلوم شدہ باتوں کے خلاف ہے۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ آپ
|