نے ایسا کچھ کہا تھا تو پھر بھی جب جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کررہے ہیں تو پھر کسی ایک صحابی کاقول حجت نہیں ہوسکتا ۔
چھٹی بات :....شیعہ کا یہ قول کہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صحابہ کو معتوب کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمیشہ مدح فرمائی‘‘ صریح کذب ہے۔اس لیے کہ قرآن کریم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہیں بھی معتوب نہیں کیا گیا؛ اور نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکبھی کوئی تکلیف پہنچی۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا تھا: ارے لوگو! ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق پہچانو، اس نے مجھے کبھی تکلیف نہیں پہنچائی۔‘‘ [1]
احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نصرت فرمایا کرتے تھے۔ اور لوگوں کے آپ کے ساتھ تعارض اوراختلاف کرنے سے باز رکھا کرتے تھے۔او ریہ بات کسی نے بھی نقل نہیں کی کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کوئی تکلیف پہنچائی ہو۔جیسا کہ بعض دوسرے لوگوں کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ آپ کے اس خطبہ کے بالکل برعکس ہے جو آپ نے اس وقت دیا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ کیا تھا۔[2] ایساخطبہ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کبھی نہیں دیا تھا۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑے بڑے عام کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے،جیسے ولایت ؛ جنگ اوربخشیش کے سلسلہ میں مشاورت وغیرہ اوردیگر امور۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے کاموں میں مداخلت نہیں کیا کرتے تھے۔ یہ دونوں بزرگ آپ کے وزیر کی حیثیت رکھتے تھے[ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے بچوں کی طرح صغیر السن تھے]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا ؛ بنی تمیم کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان پر کس کو متولی بنایا جائے؟اور ان کے علاوہ دیگر امور جن میں مشاورت کی ضر ورت ہوتی تھی ؛ آپ ان سے بطور خاص مشورہ کیا کرتے تھے۔
صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور فرمایا:’’مجھے امید ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کیساتھ اٹھائیں گے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر سنا کرتا تھاکہ: میں اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما داخل ہوئے۔میں اور ابوبکر و عمرنکلے، میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما گئے ۔‘ ‘[سبق تخریجہ]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذاتی امور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا کرتے تھے ۔ واقعہ افک کے بارے میں آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ان کی رائے پوچھی۔ اور حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے بھی آپ نے مشورہ کیا۔ یہ آپ کے ذاتی امور تھے۔اس لیے کہ جب آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسی خبر پہنچی جس کی
|