وجہ سے آپ شک میں مبتلا ہوگئے کہ کیا آپ کو طلاق دیدیں یا اپنے نکاح میں باقی رکھیں ؟تو کبھی آپ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے سوال کرتے تاکہ اندر کی کوئی خبر مل سکے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مشورہ لیا کہ کیا انہیں روکے رکھیں یا طلاق دے دیں ؟
تو انھوں نے کہا:‘‘ آپ پر کوئی تنگی نہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا عورتیں اور بھی بہت ہیں ۔لونڈی سے پوچھیے وہ آپ کی تصدیق کرے گی۔‘‘[نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس ضمن میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو انھوں نے کہا: ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پ کی بیوی ہیں ہمیں ان کے متعلق بھلائی ہی کا علم ہے]۔ [سبق تخریجہ]
چنانچہ قرآن کریم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہوئی اور آپ کو حکم د یا گیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے گھر میں آباد رکھیں جیسا کہ محبوب رسول حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا تھا۔اس واقعہ میں علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے بجائے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔[حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یقیناً بڑا ہے]۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مشورہ میں شریک ہوا کرتے تھے‘او رآپ کی ازواج مطہرات سے بات چیت کرتے ۔ یہاں تک کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ اے عمر ! تم نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رآپ کی بیویوں کے مابین ہر چیز میں دخل دینا شروع کردیا ہے ۔‘‘
وہ کلی اورعام امور جو تمام مسلمانوں کو شامل ہوا کرتے تھے ؛ جب ان کے بارے میں کوئی خاص وحی نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ لیا کرتے ؛ اگرچہ ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس مشورہ میں شامل ہواکرتے تھے۔ مگر شوری میں اصل کردار ان دوحضرات کا ہوا کرتا تھا۔اور بیشتر اوقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت میں قرآن نازل ہوا کرتا؛ اور کبھی آپ کے خلاف حق واضح ہوتا تو آپ اپنی رائے رجوع کرلیتے۔
جب کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ علم نہیں ہوسکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کسی بات پر انکار کیا ہو۔ اور نہ ہی آپ پر کسی دوسری چیز کو متقدم رکھا کرتے۔سوائے اس کے بنی تمیم پر متولی مقرر کرنے کے مسئلہ ان دونوں حضرات میں اختلاف ہوا ؛ حتی کہ دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ﴾
[الحجرات۲]
’’اے مؤمنو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو۔‘‘
اس واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ سے بڑھ کر اذیت نہیں ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں : ﴿ وَ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﴾ [الأحزاب۵۳]
’’اور تمہارے لیے ہر گزیہ مناسب نہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف دو۔‘‘
جب کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
|