علی تمہارے امیر ہیں ۔ یہ روایت اظہارمدعا میں بالکل صریح ہے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔
جواب:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی وجہ:....اس روایت کی صحیح سند پیش کرو۔تمام محدثین کا اجماع ہے کہ صرف صاحب فردوس کا کسی روایت کو ذکر کرلینا حدیث کے صحیح ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتا ۔اس لیے کہ ابن شیرویہ الدیلمی الہمذانی نے اپنی اس کتاب میں بہت ساری صحیح احادیث بھی نقل کی ہیں ‘ حسن بھی اور موضوع بھی۔ یہ انسان اگرچہ اہل علم میں سے اور دیندار آدمی تھا۔ اور ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو جان بوجھ کر جھوٹ گھڑ لیتے ہیں ۔ لیکن اس نے وہ روایات نقل کرلی ہیں جو لوگوں کی کتابوں میں موجود تھیں ۔کتابوں میں سچ او رجھوٹ ہر طرح کی باتیں ہوتی ہیں ۔ تو اس نے بھی ویسے ہی کیا جیسے بہت سارے دوسرے لوگ احادیث جمع کرتے وقت کیا کرتے ہیں ۔یا تو سند کے ساتھ روایت ذکر کرتے ہیں یا پھر سند کو حذف کردیتے ہیں ۔
دوسری وجہ :....یہ روایت سب محدثین کے نزدیک جھوٹی ہے۔اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔
تیسری وجہ:....قرآن کریم کی ذکر کردہ آیت میں صرف یہ الفاظ ہیں : ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی﴾ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ کہنے لگے : کیوں نہیں ‘ [ضرور آپ ہمارے رب ہیں ]۔‘‘اس میں نہ ہی کسی نبی کا ذکر ہے ؛ اور نہ ہی کسی امیر کا۔بلکہ اس سے اگلی آیت میں ہے :
﴿اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ﴾
’’یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا ہی نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد ایک نسل تھے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت صرف خاص طو ر پرمیثاق توحید پر مشتمل ہے۔ اس میں میثاق نبوت کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، باقی اس سے کم درجہ امور تو الگ رہے ۔
چوتھی وجہ:....اس میثاق بارے میں احادیث بڑی معروف ہیں ۔ جوکہ مسند ‘سنن ؛ موطأ اور کتب تفسیر وغیرہ میں منقول ہیں ۔ ان میں ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی گئی ۔اگر اس بات کی کوئی حقیقت ہوتی تو پھر سارے لوگ اس کے بیان کرنے کو ترک نہ کرتے ؛ بلکہ کوئی نہ کوئی ضرور اسے ذکر کرتا۔جب کہ یہاں ایک ایسا مصنف اسے ذکر کررہا ہے جس کی سچائی کا کوئی پتہ ہی نہیں ‘ بلکہ اس کا جھوٹا ہونا معروف ہے ۔
پانچویں وجہ:....علاوہ ازیں چونکہ یہ عہد سب لوگوں سے لیا گیا تھا۔ لہٰذا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جملہ انبیاء از نوح تا محمد علیہم السلام کے بھی امیر ہیں ؛ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے ۔ اس لیے کہ یہ انبیاء علیہم السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے، ان کے امیر کیوں کر قرار پا سکتے تھے؟ زیادہ سے زیادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے اہل زمانہ کے امیر ہو سکتے ہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پہلے لوگوں کے بھی امیر تھے اور ان لوگوں کے بھی جو آپ کے بعدپیدا ہوئے تو کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔اور نہ ہی اسے ایسی بے ڈھنگ باتیں
|