اس پر وہ بہت غصہ ہوا اور کھڑا ہوگیا۔‘‘ [1]
قاسم کی غرض یہ تھی کہ وہ بھی اس پر ایسی ہی بات سے ردّ کرے جیسی بات وہ کہہ رہا ہے ۔ جبکہ تم اس بات کو نا پسند کرتے ہواور اس کو رد کرتے ہو؛ پس جس دلیل سے یہ قول رد ہوگا ‘ اس سے آپ کی دلیل بھی رد ہوجائے گی ۔ ایسے ہی یہی حال رافضیوں اور قرامطہ کی ان تاویلات کا ہے جو لوگوں کی زبان پر ہیں ؛ جیسے ان کا یہ قول :
﴿ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ ﴾ [التوبۃ۱۲]
’’ پس کفر کے ائمہ کو قتل کرو ۔‘‘
[اس سے مراد] طلحہ وزبیر ؛ ابو بکر و عمر اور معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔اس کے مقابلہ میں خوارج کا قول ہے جو کہتے ہیں : اس سے مراد حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ہیں ۔یہ دونوں تفسیریں باطل ہیں ۔یہاں پر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ جھوٹی دلیل کے مقابلہ میں ایسی ہی جھوٹی دلیل لے آتے ہیں ۔ او رجس دلیل سے اس قسم کی تفسیر کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے وہ دونوں کے لیے عام ہے ۔ اس سے ان تمام دلائل کا باطل ہونا ثابت ہوا۔
٭٭٭
|