اگر شیعہ اعتراض کریں کہ : ہمارے قول کے برعکس اس طر ح کی تفسیر کسی نے نہیں کی ؟ تو اس کاجواب دو طرح سے ہے:
پہلی وجہ :....[آپ کی تفسیر بھی ]ممنوع ہے۔ بلکہ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی گزرے ہیں ‘جو اس آیت سے اور اس طرح کی بعض دوسری آیات سے خاص ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کو مراد لیتے ہیں ۔
دوسری وجہ :....کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس آیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو خاص کردیا گیا ہے ۔ جب کہ کسی دوسرے کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی اور کو اس آیت کی تفسیر کے ساتھ خاص کردیں ۔ تو یہ دونوں دلائل ایک ہی جنس سے ہوں گے۔ یہ بات شیعہ کی دلیل کے فاسد ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اگرچہ اس طرح کی بات پہلے کسی نے نہ بھی کہی ہو۔ اس لیے کہ جب کوئی انسان جھوٹ بولتا ہے تو کسی دوسرے کے لیے اس جیسے جھوٹ کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن ہوتا ہے ۔ تو اس دلیل کا توڑ اس جیسی ہی دلیل سے ہوسکتا ہے ۔ تو پھر اس صورت میں واجب ہوتا ہے یا تو دونوں کی تصدیق کی جائے یا پھر دونوں کی تکذیب کی جائے۔
قاسم بن زکریا کی حکایت مشہور ہے؛وہ عباد بن یعقوب اسدی رافضی کے پاس گیا۔[وہ کہتا ہے] اس [رافضی ] نے مجھ سے کہا: ’’دریا کس نے کھودا؟‘‘
میں نے کہا:’’ اﷲتعالیٰ نے۔‘‘
اس نے کہا:’’ تم سچ کہتے ہو، مگر یہ بتاؤ دریا کس نے کھودا؟‘‘
میں نے کہا:پھر آپ ہی ارشاد فرمائیں ۔‘‘
عباد نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھودا تھا۔ ‘‘
پھر اس نے پوچھا :’’ دریا کو کس نے جاری کیا؟‘‘
میں نے کہا:’’ اﷲتعالیٰ نے۔‘‘
تم سچ کہتے ہو، مگر یہ بتاؤ دریا کس نے جاری کیا تھا؟‘‘
میں نے کہا:آپ ہی فرمائیں ۔
عباد نے کہا:’’ حسین نے جاری کیا۔‘‘
[[عباد نابینا تھا۔ جب میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو؛ میں نے اس کے پاس ایک تلوار اور ڈھال دیکھی تو پوچھا یہ کس کی ہے ؟ عباد کہنے لگا :میں نے مہدی کے ساتھ لڑنے کے لیے یہ تلوار رکھی ہے۔ میں اس کی باتیں سن کر فارغ ہوا اور]] جب جانے کے ارادہ سے کھڑا ہونا چاہا تواس نے پھر پوچھا : ’’دریا کس نے کھودا؟ ‘‘
میں نے کہا:’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے۔‘‘
پھر اس نے پوچھا اس میں پانی کس نے جاری کیا : میں نے کہا: یزید نے ۔
|