بیٹھ جائیے ! تم ہی میرے بھائی اور میرے وزیر ہو؛ اور میرے وصی اور وارث ہو۔ لوگ کھڑے ہوگئے اور وہ ابو طالب سے کہہ رہے تھے : تمہیں مبارک ہو ‘ کہ آج تم اپنے بھتیجے کے دین میں داخل ہوگئے؛ اور اس نے تمہارے بیٹے کو تم پر امیر بنادیا ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی ]
[جوابات]: اس [اشکال ] کا جواب کئی نکات پر مشتمل ہے :
اول :....ہم شیعہ سے مذکورہ بالا روایت کی صحت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔شیعہ مصنف کا دعوی کرنا کہ یہ روایت تمام اہل علم نے روایت کی ہے ؛ صریح اور کھلا ہوا کذب اور دروغ گوئی ہے۔اہل اسلام حدیث نقل کرنے میں جن کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں ؛ان میں اس طرح کی کوئی روایت موجود نہیں ۔ یہ روایت نہ ہی صحاح میں ہے اور نہ ہی سنن میں ؛ نہ ہی مغازی میں ؛اورنہ ہی ان تفسیرکی کتابوں میں جن میں سند ذکر کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے؛ اور نہ ہی مسانید میں ۔ ہاں اگر بعض ان کتابوں میں ہو جن میں [بغیر کسی تمیز کے] صحیح اور ضعیف ہر قسم کی روایات جمع کردی جاتی ہیں ؛جیسے ثعلبی؛ واحدی؛ اور بغوی وغیرہ؛ تو یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ بلکہ ابن جریراور ابن حاتم رحمہما اللہ بھی اگر کوئی روایت نقل کریں تو صرف ان کے نقل کرنے سے روایت قابل حجت نہیں ہو جاتی ؛ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔اس لیے کہ جب یہ بات معلوم ہے کہ روایات میں صحیح بھی ہوتی ہیں اور ضعیف بھی؛ تو پھر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ یہ روایت صحیح احادیث میں سے ہے ؛ ضعیف میں سے نہیں ۔
اس حدیث کی انتہائی غایت یہ ہے کہ یہ روایت تفسیر کی بعض ان کتابوں میں پائی جاتی ہے جن میں صحیح اور سقیم ہر طرح کی روایات موجود ہیں ۔ ان میں بہت ساری من گھڑت اور جھوٹی روایات پائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ جن کتب تفسیر میں یہ روایت پائی جاتی ہے جیسا کہ : تفسیر ابن جریر ؛ تفسیر ابن ابی حاتم؛ تفسیر ثعلبی اور تفسیر بغوی؛ ان کتابوں میں صحیح اسناد کے ساتھ دوسری ایسی روایات بھی موجود ہیں جو کہ اس روایت کے متناقض ہیں ۔ مثال کے طور پر جن مفسرین نے یہ روایت اسباب نزول میں ذکر کی ہے؛ انہوں نے صحیح اسناد کے ساتھ دوسری صحیح اور ثابت شدہ روایات ایسی روایات بھی ذکر کی ہیں جن کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہے؛ اور وہ اس روایت کے متناقض ہیں ۔ لیکن یہ روایت مفسرین نے اپنی ان اس عادت کے مطابق نقل کی ہے کہ وہ اسباب میں نزول میں ذکر کردہ تمام روایات نقل کردیتے ہیں ؛ خواہ وہ روایات صحیح ہوں یا ضعیف۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک مفسر کسی ایک آیت کی شان نزول میں کئی ایک اقوال ذکر کرتا ہے۔ تاکہ اس بارے میں لوگوں کے اقوال اور منقولات کا ذکر ہوجائے؛ اگرچہ ان میں سے بعض اقوال صحیح ہوں اوربعض جھوٹ ہوں ۔ اور جب کوئی-اس رافضی مصنف کی طرح - تمام تفسیری منقولات میں سے اس طرح کی ضعیف روایت سے استدلال کرتا ہے ؛ اور اس کے متناقض تمام تر روایات کو چھوڑ دیتا ہے ؛ تو تمام دلائل میں سے اس کی یہ دلیل انتہائی بودی اور بیکار ہوتی ہے۔ جیسا کہ کوئی انسان اپنے حق میں ایسے گواہ کی گواہی پیش کرے جس کا عادل ہونا ثابت ہی نہیں ہو۔ بلکہ اس پر جرح ثابت ہو؛ اور بہت سارے عادل گواہوں کی گواہی اس کے خلاف ہو۔ وہ ایسی گواہی دیتے ہوں جو اس گواہی کو جڑوں سے اکھاڑ
|