Maktaba Wahhabi

231 - 764
پھینکتی ہو۔ یا پھر ایسے راوی کی روایت سے حجت پیش کرے جس کی عدالت ثابت ہی نہ ہو؛ بلکہ اس پر جرح ثابت ہو؛ اور بہت سارے راوی اس روایت کے خلاف روایت کرتے ہوں ۔ بلکہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ یہ حدیث ثقہ اور عادل راویوں کی روایت ہے؛ اور دوسرے ثقہ اور عادل راویوں نے اس کے خلاف روایت کیا ہے ؛ تو اس صورت میں واجب ہوجاتا ہے کہ ان دونوں روایات میں گہری نظر سے غور و فکر کیا جائے ؛ ان میں سے کون سی روایت زیادہ ثابت اور راجح ہے۔اورجب ان دونوں روایات کے متناقض ہونے پر ماہرین نقل اہل علم کا اتفاق ہے ؛ تو پھر اس صحیح حدیث کے بارے میں ان کا تعامل ؍طریقہ کار کیا تھا جبکہ یہ حدیث اس دوسری حدیث کے متناقض ہے جس کاصحیح ہونا تواتر کے ساتھ معلوم ہے اور بہت سارے ائمہ تفسیر نے اس روایت کو صرف اس لیے ذکر نہیں کیا کہ وہ اس روایت کا باطل ہونا ؍غلط ہونا جانتے تھے۔ دوم:....ہم اس روایت کو قبول کرنے کے لیے دو شرطوں کے ساتھ راضی ہیں : پہلی شرط:....یہ روایت ایسی سند کے ساتھ ذکر کی جائے جو اہل علم کے ہاں اختلافی مسائل میں قابل حجت ہو؛ بھلے وہ کوئی فروعی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری شرط:....یا پھرمحدثین میں سے کسی ایسے محدث کا قول ہو جن کی تصحیح پر لوگ اعتماد کرتے ہوں ۔ اس لیے کہ اگر دو فقیہ فروعات میں سے کسی ایک فروع میں باہم جھگڑ پڑیں ؛ تو مناظرہ میں حجت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک وہ ایسی صحیح حدیث پیش نہ کردے جس سے حجت قائم ہوسکتی ہو۔ یہ وہ اس قول کو صحیح قرار دے جو اس کی طرف لوٹایا جارہا ہے ۔ اس کے بر عکس اگر اس روایت کی سند ہی معلوم نہ ہو ۔ اور ائمہ محدثین سے اس حدیث کا منقول ہونا ثابت ہی نہ ہو ؛ تو پھر یہ حدیث کیسے معلوم کی جاسکتی ہے ؟ پھر خاص کر ان اصولی مسائل میں [اس روایت پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ] جن میں جمہور ِ امت اور سلف صالحین پر طعن کیا جاتا ہو؟اور ان کے ذریعہ سے ملت کے قواعد کو منہدم کرنے تک کا وسیلہ اختیار کیا جاتا ہو۔ [غور کیجیے ] ایسی روایت جس کی سند ثابت نہ ہو ؛ ائمہ و محدثین نے اسے نقل نہ کیا ہو؛ اور کسی ایک عالم نے بھی اسے صحیح نہ کہا ہو تو پھر ایسی روایت کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ سوم:....یہ روایت اہل علم اور محدثین کے نزدیک من گھڑت اور جھوٹ ہے ۔ کوئی بھی محدث ایسا نہیں ہے جسے حدیث کے بارے میں علم ہو اور وہ اس روایت کے من گھڑت ہونے کو نہ جانتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ اس روایت کو کسی بھی اہل علم نے ایسی کسی کتاب میں روایت نہیں کیا جس کی طرف رجوع کیا جاتا ہو۔ اس لیے کہ ادنی علم رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ یہ روایت موضوع اور جھوٹ ہے ۔ اس روایت کو ابن جریر اور بغوی نے اپنی اپنی اسناد سے نقل تو کیا ہے ‘ مگر اس کی سند میں عبدالغفار بن قاسم بن فہد ؛ ابو مریم الکوفی نامی راوی ہیں ؛ اس کی روایت کے مردود ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے ۔ سماک بن حرب اور ابو داؤد رحمہما اللہ نے اسے جھوٹا کہا ہے ۔
Flag Counter