’’اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں ۔‘‘
ابو نعیم مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ﴿وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ ﴾ اس سے مرادحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘ اور﴿وَ صَدَّقَ بِہٖ ﴾ سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔اور فقیہ شافعی نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ: ﴿ وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ﴾سچائی لانے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سچائی کی تصدیق کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظیم خصوصیت ہے لہٰذا آپ امام و خلیفہ ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
[جواب]:ہم اس کا جواب کئی طرح سے دے سکتے ہیں :
پہلی بات :....یہ تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس ضمن میں صرف اکیلے حضرت مجاہد کا قول اگر ثابت ہو جائے تو بھی ایسی حجت نہیں کہ تمام مسلمانوں پر اس کی اتباع واجب ہو۔ حالانکہ مجاہد سے یہ روایت ثابت ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے۔اس لیے کہ مجاہد سے نقل کردہ روایات میں جھوٹ کی کثرت ہے ۔ [آپ سے نقل کرنے والا جھوٹ بولتا ہے]۔
مجاہد سے اس کی تفسیر اس کے برعکس ثابت ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ صدق سے قرآن مراد ہے۔ اور ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد وہ مؤمن ہے جو اس پر عمل کرے۔اس لحاظ سے یہ حکم عام ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ اور دوسرے مفسرین نے حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے آپ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ اہل قرآن ہیں جنہیں قیامت کے دن پیش کیا جائے گا۔اوروہ[اللہ تعالیٰ سے قرآن کے بارے میں ] کہیں گے : یہی وہ چیز ہے جو آپ نے ہمیں دی تھی اور ہم اس پر عمل کرتے رہے ۔
ابو سعید الاشج نے روایت کیا ہے ؛ فرمایا: ہم سے ادریس نے بیان کیا ؛ وہ لیث اور وہ مجاہد - رحمہم اللہ - سے یہی تفسیر روایت کرتے ہیں ۔ نیز [دوسری سند سے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ] ہم سے محاربی نے بیان کیا ؛ وہ جویبر سے وہ ضحاک سے نقل کرتے ہیں : آپ فرماتے ہیں : ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد تمام مؤمن ہیں ۔
مفسر ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی سند سے روایت کرتے ہیں : مجھ سے میرے والد نے بیان کیا؛ ان سے ابو صالح نے بیان کیا ؛ ان سے معاویہ بن صالح نے؛ وہ علی بن طلحہ سے اوروہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں ‘ وہ فرماتے ہیں : ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
دوسری بات:....شیعہ کا قول جمہور مفسرین کے ہاں مشہور تفسیرکے خلاف ہے جو کہتے ہیں کہ: اس آیت میں : ’’جَائَ بِالصدق ‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ مفسرین کی ایک جماعت نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔
ابن جریر طبری،اور دیگر مفسرین نے اپنی اسناد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ تفسیر نقل کی ہے آپ فرماتے ہیں :
’’جَائَ بِالصدق‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
|