یہ بات بعض مفسرین نے ابوبکربن عبد العزیز بن جعفر الفقیہ؛ جو کہ حضرت ابو بکر الخلال رحمہ اللہ کے غلام ہیں ؛ سے نقل کی ہے؛ان سے اس آیت کی بابت دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:’’ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔
معترض نے کہا: یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ سن کر ابوبکر الفقیہ نے کہا:’’ اس آیت سے آگے تلاوت کیجیے، :﴿اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾سے لے کر آگے تک : ﴿فَکَفَّرَ اللّٰہُ اَسْوَأَ الَّذِیْ عَمِلُوْا﴾ (الزمر۳۵) ’’تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے برے عملوں کو دور کر دے۔‘‘
[اس نے جب یہ آیت پڑھی تو ابوبکرالفقیہ نے کہا:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمہارے نزدیک معصوم ہیں ، پھر ان سے کون سے گناہ دور کیے جائیں گے]۔ معترض لاجواب ہو گیا۔
تیسری بات:....جہاں تک آیت کے الفاظ کا تعلق ہے وہ عام اور مطلق ہیں ان میں نہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کوئی تخصیص ہے اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی؛بلکہ جو بھی اس کے عموم میں شامل ہوں وہ اس حکم میں داخل ہوسکتے ہیں ۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اس امت میں سے اس آیت کے حکم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ حق دار ہیں ؛ لیکن پھر بھی یہ آیت ان کے ساتھ خاص نہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلٰی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِِذْ جَائَہُ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِلْکٰفِرِیْنَ o وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ﴾ [الزمر ۳۲۔۳۳]
’’پھر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے سامنے آئی تو اسے جھٹلا دیا ۔ کیا ایسے لوگوں کے لیے جہنم میں ٹھکانا نہیں ہے؟ اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جنہوں نے اس کو سچ مانا ، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اللہ پر جھوٹ بولنے والوں اور حق بات جھٹلانے والوں کی مذمت کی ہے ۔ اور یہ ایک عام حکم ہے ۔ رافضی سب سے بڑے اہل بدعت ہیں جو اس مذموم وصف میں داخل ہیں ۔اس لیے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر سب سے زیادہ بہتان گھڑنے والے ہیں ۔اور جب سچ بات ان تک پہنچتی ہے تو اسے سب سے زیادہ جھٹلانے والے ہوتے ہیں ۔ اور سچائی کی تصدیق کرنے میں سب سے زیادہ دور رہنے والوں میں سے ہیں ۔
خالص اہل سنت اس آیت کے مصداق ہونے کے سب سے بڑے حق دار ہیں ۔اس لیے کہ وہ سچ بولتے ہیں ؛ اور جب کہیں سے بھی حق بات انہیں مل جاتی ہے تواس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ ان کی تمام تر خواہشات حق کے ساتھ ہوتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے سچائی کا پیغام لانے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے کی مدح و توصیف بیان کی ہے۔یہ تعریف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ہے اور آپ پر ایمان لانے والے ہر انسان کے لیے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:
وہ جو کہ سچ کا پیغام لے کر آیا اور وہ خاص کہ جس نے اس کی تصدیق کی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دو علیحدہ علیحدہ اقسام نہیں
|