بنائیں ۔ بلکہ ان دونوں کو ایک ہی قسم بتایا ہے۔اس لیے کہ اس سے مراد سچائی کی تعریف کرنا ہے ‘ بھلے وہ پیغام لانے کے اعتبار سے ہو یا اس کی تصدیق کرنے کے اعتبار سے ۔ یہ دونوں اوصاف کے اعتبار سے قابل تعریف ہے۔
(جَاءَ بِالصِّدْقِ)اسم جنس ہے۔جو کہ ہر قسم کی سچائی کو شامل ہے۔قرآن اس سچائی میں داخل ہونے میں پہلے درجہ پر ہے ۔اسی لیے فرمایاکہ : اور اس جنس ِسچائی کی تصدیق کی۔اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تصدیق کرنے والا ایسی چیز کی تصدیق کرتا ہے جو اصل میں سچائی نہیں ہوتی۔جیسا کہ کہا جاتا ہے : فلاں انسان حق بات کہتا ہے ‘ اور حق بات سنتا ہے ‘اور اسے قبول کرتا ہے؛ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔یعنی وہ دوسروں کے لیے حق کہنے اور دوسروں سے حق بات قبول کرنے کے ساتھ موصوف ہے۔ اوراس میں دو وصف پائے جاتے ہیں عدل کرنے کا حکم دیتا ہے او رخود اس پر عمل کرتا ہے۔ اگرچہ بہت سارا عدل جس کا وہ حکم دیتا ہے ؛ وہ حقیقت میں وہ چیز نہیں ہوتی جس پر وہ عمل کرتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو ان دو میں سے کسی ایک وصف سے متصف ہوں : اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ؛ اور حق کو جھٹلانا۔ کیونکہ ان دو میں سے ہر ایک وصف مذمت کا مستحق ہے۔ توان کے برعکس ان لوگوں کی تعریف بیان کی ؛ جو ان دو مذموم اوصاف سے خالی ہوں ۔ اس طرح سے کہ کوئی سچی بات لے کر آتا ہو؛ جھوٹ نہ لاتا ہو۔ اوراس کے ساتھ ہی وہ حق بات کی تصدیق کرنے والا ہو؛ اسے جھٹلانے والا نہ ہو۔ اور اس کا اپنا ذاتی کلام نہ ہو۔ کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا وہی بات کہے تو یہ اس کی تصدیق نہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو سچ ہی بولتے ہیں جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن انہیں حسد اور منافست کی وجہ سے یہ بات بھی ناگوار گزرتی ہے کہ کوئی دوسرا ان کے قائم مقام ہو۔پس وہ دوسرے کی سچائی کو بھی جھٹلاتا ہے؛ یا اس کی تصدیق نہیں کرتا؛ بلکہ اس سے روگردانی اور ارعراض کرلیتا ہے۔ اور ان میں ایسا بھی کوئی انسان ہوتا ہے جو کسی دوسرے گروہ کی بات کی صداقت یا جھوٹ جاننے سے پہلے ان کی تصدیق کرلیتا ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ جو کچھ کہتا ہے ان کی تصدیق نہیں کرتا؛ بھلے وہ سچا ہی ہو۔ جبکہ چاہیے تو یہ تھا کہ یا تو ان کی تصدیق کرے ؛ یا پھر اس سے منہ موڑ لے۔ یہ بات اکثر ہوئے نفس کے پجاری فرقوں میں پائی جاتی ہے۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ اپنی بات نقل کرنے میں سچے ہوتے ہیں ۔ لیکن اس کے طائفہ یا گروہ سے متعلق جو کچھ نقل کیا جاتا ہے اس سے اعراض کرتے ہیں ۔ پس وہ بھی اس مدح میں داخل نہیں ہوتے؛ بلکہ مذمت میں داخل ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ اس حق کی تصدیق نہیں کرتے جو ان تک پہنچا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جھوٹے اور حق بات کو جھٹلانے والے دونوں کی مذمت کی ہے۔ اور ایسا کئی آیات میں آیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہٗ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ ﴾[العنکبوت: 68]
’’اور ا س سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا حق کو جھٹلا دے جب وہ اس کے پاس آئے۔
|