تین دن تک انہیں مسلسل بھوکا رکھنے سے بدنی و عقلی کمزوری کے ساتھ صحت کی خرابی اور دین میں فساد کا سبب بن سکتی ہے ۔ یہ اس انصاری کے قصہ کی طرح ہر گز نہیں ہے جس میں انہوں نے بچوں کو صرف ایک رات کے لیے بھوکا سلایا تھا۔ اس لیے کہ بچے اتنا تو برداشت کرسکتے ہیں ؛ مگر تین دن اور تین رات تک ایسا نہیں کرسکتے۔
نویں بات:....پھر اس یتیم بچے کا قصہ جس کا یہ قول ہے کہ:’’ میرے والد یوم العقبہ شہید ہو گئے تھے ۔ ‘‘صاف اور کھلا ہوا جھوٹ ہے، اس لیے کہ عقبہ کی رات صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی گئی تھی لڑائی نہیں ہوئی تھی۔بلکہ اس رات انصار نے بیعت کی تھی ۔ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔اس وقت تک جہاد کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ روایت تو جھوٹی ہے ‘ یہ معاملہ اپنی جگہ پر ؛ مگر اس قصہ کو نقل کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے انتہائی بیگانہ اور جاہل انسان ہے ۔[اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ عقبہ کی رات کیا ہوا تھا ] اس کے بجائے اگر یوں کہہ دیتا کہ ’’ احد کے دن میرے والد شہید ہوگئے تھے ‘‘ تو پھر بھی کوئی بات بنتی تھی۔
دسویں بات:....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود شہداء کے یتیم بچوں کی کفالت فرمایا کرتے تھے ۔ اسی لیے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خادم مانگا تو آپ نے فرمایا : ’’ میں شہدائے بدر کے بچوں کو چھوڑ کر تمہیں نہیں دے سکتا ۔‘‘
اب اگر کوئی یہ کہے کہ : وہ شہداء مجاہدین کے یتیموں میں سے تھا ؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کفالت نہیں کیا کرتے تھے تو یہ انتہائی بڑا جھوٹ اور دروغ گوئی ہوگی۔
گیارھویں بات:....مدینہ میں قیدی بھیک نہیں مانگا کرتے تھے۔ بلکہ مسلمان ہر طرح ان کی ضروریات کی کفالت کیا کرتے تھے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ایک قیدی مدینہ میں بھیک مانگا کرتا تھا، صحابہ کرام پر جھوٹ اور ان کی شان میں قدح ہے۔ قیدیوں کی بڑی تعداد بدر کے دن آئی تھی۔یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی سے پہلے کا واقعہ ہے ۔اس کے بعد تو قیدی انتہائی کم تعداد میں ہوا کرتے تھے۔
بارھویں بات:....اگر مان لیا جائے کہ یہ قصہ صحیح ہے۔اور اس کا شمار فضائل میں ہوتا ہے۔ تو پھر بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس قصہ والالوگوں میں سب سے افضل ہو۔اورنہ ہی یہ لازم آتا ہے کہ باقی لوگوں کو چھوڑ کر آپ ہی امام ہوں ۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سب لوگوں کی نسبت غرباء کو زیادہ کھانا کھلایا کرتے تھے۔ [1] یہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شان میں فرمایا تھا:’’ آپ کی سیرت و صورت میرے جیسی ہے۔‘‘ [2]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مساکین اور فقراء کے ساتھ لطف و احسان کے سلسلہ میں کوئی شخص حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر نہیں چلا۔ [3] اس کے علاوہ بھی آپ کے فضائل ہیں ‘ تاہم ان فضائل
|