Maktaba Wahhabi

147 - 764
نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے : ﴿وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ﴾ [الإنسان ۸] ’’اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو۔‘‘ یہ آیت اس دوسری آیت کی طرح ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ ﴾ [البقرۃ ۱۷۷] ’’ اوروہ دیتا ہے مال اللہ کی محبت میں قریبی رشتہ داروں کو یتیموں کو اور مساکین کو۔‘‘ صحیح بخاری میں ہے کہ : ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا :یا رسول اللہ! کون سا صدقہ اجر کے اعتبار سے زیادہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تندرست ہے، بخیل ہے اور فقر سے ڈرتا ہے اور مال داری کی امید کرتا ہے اور اتنا توقف نہ کر وکہ جان حلق تک آجائے اور پھرکہو کہ اتنا مال فلاں شخص کے لیے ہے اور اتنا مال فلاں شخص کو دے دیا جائے حالانکہ اب تو وہ مال فلاں کا ہو ہی چکا ہے۔‘‘ [1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﴾ [آل عمران ۹۲] ’’جب تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پا گے۔‘‘ پس جس چیز کو انسان پسند کرتا ہے اس جنس کے تحت صدقہ کرنے کی کئی انواع و اقسام ہیں ۔مگر اپنی انتہائی سخت ضرورت کے باوجود اپنے پر دوسرے کوترجیح دینا؛ یہ صرف محبت میں صدقہ کرنے سے زیادہ افضل اور اجر و ثواب میں بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ ہر ایک صدقہ کرنے والا محبت کرنے والا اور ذاتی ضرورت پر ترجیح دینے والا نہیں ہوسکتا ۔اور نہ ہی ہر صدقہ دینے والے کوخود انتہائی سخت ضرورت ہوتی ہے۔بلکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی پسندیدہ چیز میں سے کچھ صدقہ بھی کرے اور کچھ اپنی ضرورت کے لیے بچا کر بھی رکھ لے۔حالانکہ اس کی محبت انتہائی سخت ضرورت کو نہیں پہنچی ہوتی۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اس رات میں مہمان کو ترجیح دینے پر انصاری گھرانے کی ان الفاظ میں مدح کی ہے ؛ تو پھر اس قصہ میں اہل بیت کا جو ایثار نقل کیا گیا ہے یہ انصاری کے ایثار سے بہت بڑھ کر ہے ؛ اگر ایسا کرنا ہر حال میں قابل مدح ہے تو مناسب تھا کہ اس پر بہت زیادہ مدح کی جاتی اور اگریہ فعل قابل مدح و تعریف نہیں توپھر اسے مناقب میں ذکر نہیں کیا جاسکتا ۔ آٹھویں بات:....یہ ایسا قصہ ہے کہ اس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اس لیے کہ یہ شرعی حکم کے خلاف ہے۔ کیونکہ تین شب و روزتک بچوں کو کھانا نہ کھلانا خلاف شرع ہے۔ [اورہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :’’پہلے اپنے اہل و عیال کو کھلاؤ۔‘‘] [2]
Flag Counter