کی ادائیگی پر وہ قابل تعریف ٹھہریگا۔صرف عقد پر اس کی کوئی تعریف نہیں ہوگی۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔
چھٹی بات:....حضرت علی رضی اللہ عنہ یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کوئی لونڈی فضہ نامی نہیں تھی۔درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقارب میں سے کسی کے پاس کوئی لونڈی نہیں تھی۔ بلکہ مدینہ بھر میں اس نام کی کوئی کنیز نہ تھی۔اور اہل علم میں سے جن لوگوں نے چھوٹے بڑے ہر قسم کے احوال جمع کیے ہیں ؛ ان میں سے کسی ایک نے ایسی کسی لونڈی کا ذکر تک نہیں کیا ۔
یہ فضہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ’’ ابن عقب‘‘ ایک فرضی نام وضع کیا گیا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا استاد تھا ؛ اور اسے ایک سیب دیا گیا تھا جس میں مستقبل میں پیش آنے والے حوادث کا علم تھا۔[حالانکہ اس نام کا کوئی آدمی نہ تھا]۔اس کے علاوہ بھی اس طرح کی جھوٹی کہانیاں گھڑلی گئی جنہیں جاہل لوگوں میں پھیلایا جارہا ہے۔ اہل علم کا اجماع ہے کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا کوئی استاذ و مدرس نہیں تھا۔ اور صحابہ کرام میں ابن عقب نامی کوئی آدمی نہیں تھا۔
جو جنگی مرثیے ابن عقب کی طرف منسوب ہیں ‘انہیں بہت بعدکے بعض جہال [ودجال] روافض نے نظم کیا ہے۔جو کہ صلاح الدین ایوبی اور نور الدین کے زمانے کے لوگ تھے۔ جس وقت شام کا بہت بڑا حصہ عیسائیوں کے ہاتھوں میں تھا ؛ اور مصربنو عبید کے بقایا ملحدین قرامطی شیعہ کے زیر دست تھا۔ان مرثیوں میں وہ کچھ بیان کیا ہے جو اس وقت کے حساب سے مناسب تھا ؛ ایسی نظم کوئی عام آدمی بھی لکھ سکتا ہے ۔
یہی حال اس فضہ نامی لونڈی کا ہے۔بخاری و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم طلب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’سوتے وقت سو مرتبہ سبحان اﷲ و الحمد ﷲ اور اﷲ اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ خادم سے بہتر ہے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے تب سے یہ وظیفہ ترک نہیں کیا۔ آپ سے پوچھا گیا : صفین کی رات بھی ؟آپ نے فرمایا صفین کی رات بھی نہیں چھوڑا ۔‘‘ [1]
اس روایت کے صحیح ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ئی خادم نہیں دیا گیا تھا۔اگر اس کے بعد کہیں سے کوئی خادم آگیا ہو تو ممکن ہے ایسا ہوسکتا ہے ۔ مگر فضہ نام کی کوئی باندی نہیں تھی۔
ساتویں بات:....صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ ایک انصاری گھرانے نے اپنے مہمان کو رات کے کھانے میں ترجیح دی۔انہوں نے اپنے بچوں کو بھی بھوکا سلادیا اور خود میاں بیوی بھی بھوکے پیٹ سو گئے ۔ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ﴾ [الحشر۹]
’’بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو ۔‘‘
|