Maktaba Wahhabi

145 - 764
آپ انہیں اس کا حکم دیتے ؛ عام عرب لوگ اس کا نہ کہتے ۔ اور اگر یہ اطاعت کا کام نہیں تھا تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان عام عرب لوگوں کی بات ماننے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔پھر یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیے بغیر عام لوگوں کی بات کیسے مان لی ؟ پانچویں بات:....صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا ہے اور فرمایاہے : ’’اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا ۔ البتہ بخیل کا مال ضرور نکل جاتا ہے۔‘‘ [1] ایک دوسری روایت میں ہے : ’’ بیشک نذر ابن آدم کو تقدیر کی طرف ہی لوٹاتی ہے ۔ پس وہ نذر پر وہ کچھ دیتا ہے جو کسی دوسری چیز پر نہیں دیتا ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نذر ماننے سے منع فرمایا کرتے تھے ۔آپ فرمایا کرتے تھے : نذر کسی خیر کو نہیں لاتی؛ بلکہ نذر ابن آدم کو تقدیر کی طرف ہی لوٹاتی ہے ۔اگر حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کے اہل خانہ جیسے لوگ اس جیسی حدیث کو نہیں جان سکے جسے عام مسلمان بھی جانتے ہیں ‘ تو پھریہ ان کے علم پر قدح و تنقید ہے تو ان کا معصوم ہونا کہاں گیا ؟ اگر انہیں اس کا پتہ تھا مگر پھر بھی انہوں نے ایسا کام کیا جس میں نہ ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ؛اور نہ ہی ان کے لیے کوئی فائدہ ۔بلکہ اس سے منع کیا گیا تھا۔اور نہی یا تو تحریم کے لیے ہوتی ہے یا پھر تنزیہ کے لیے۔تو ہر دوطرح سے یہ یا تو ان کے دین پر قدح وارد ہوتی ہے یا پھر عقل اور علم پر ۔ جو انسان اس قسم کے فضائل نقل کرتا ہے ‘حقیقت میں وہ کوراجاہل ہے ۔وہ مدح کے روپ میں ان کی مذمت بیان کرتا ہے ۔ اور انہیں بلندکرنے کے انداز میں نیچے گراتا ہے۔ اور ان کی تعریف کی الفاظ میں مذمت بیان کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل بیت میں سے بعض نے ان رافضیوں سے کہا تھا: اے رافضیو! کیا وجہ ہے کہ ہمارے ساتھ تمہاری محبت ہمارے لیے عیب اور عار بنتی جارہی ہے۔ ایک ضرب المثل بیان کی جاتی ہے کہ عقلمند دشمن بیوقوف اور جاہل دوست سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘ اﷲتعالیٰ نے ایفاء نذر کی تعریف کی ہے، مگر نذر ماننے کو قابل تعریف فعل قرار نہیں دیا۔ جس طرح ظہار( بیوی سے یوں کہنا کہ تو میرے لیے اسی طرح ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ) کوئی قابل تعریف فعل نہیں ہے، مگر کوئی شخص جب ظہار کرتا ہے تو اس پر ظہار کا کفارہ واجب ہوجاتا ہے ۔ اور جب اس کا مرتکب ہو اور کفارہ ادا کردے تو واجب کی ادائیگی پر یہ ایک ممدوح فعل ہے۔نہ کہ ظہار کا ارتکاب کرنے پر ممدوح ہے ؛ اس لیے کہ ظہار حرام ہے۔ ایسے ہی جب انسان اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور پھر اسے اچھے طریقے سے رخصت کردے ؛ تو طلاق کی وجہ سے واجب ہونے والے فریضہ کی ادائیگی پر وہ ممدوح ٹھہرے گا۔ بذات خود طلاق کوئی اچھی چیزنہیں ہے ‘ بلکہ مکروہ امور میں سے ہے۔ ایسے ہی جو انسان خرید و فروخت کرے اپنے ذمہ کی ادائیگی کرے تو اس عقد خرید وفروخت کی وجہ سے اس پر جو کچھ واجب ہوا تھا اس
Flag Counter