جوکہ بہ اتفاق اہل نقل موضوع ہے۔اس کے موضوع ہونے پر ائمہ اہل نقل؛ ائمہ تفسیر؛ اور ان حضرات کا اتفاق ہے جو سند کے ساتھ روایات نقل کرتے ہیں جیسے ابن جریج؛ سعید بن ابی عروبہ؛ عبدالرزاق ؛ عبد بن حمید؛ احمد؛ اسحق؛ تفسیر بقی بن مخلد؛ ابن جریر الطبری؛ محمد بن اسلم الطوسی؛ ابن ابی حاتم ؛ ابو بکر ابن المنذر؛ اور ان کے علاوہ دیگر اکابر علمائے کرام۔ جنہیں عوام میں مقبولیت حاصل ہے؛ اور ان کی تفاسیر کو اعتماد و قبولیت حاصل ہے۔
تیسری بات:....اس روایت کے جھوٹ ہونے پر بہت سے دلائل موجود ہیں ۔ان میں سے ایک یہ کہ : یہ تاریخ کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ کا نکاح مدینہ میں ہوا؛ او رغزوہ بدر کے بعد آپ کی رخصتی ہوئی۔جیسا کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے۔اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما اس کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش سن تین اور چار ہجری ہے ۔لوگوں کا اتفاق ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں شادی کی ؛ اور آپ کے بچے مدینہ میں پیدا ہوئے۔ یہ عام اور متواتر علم ہے۔ جسے ہر وہ انسان جانتا ہے جسے علم سے کوئی ادنی شغف بھی ہو۔
[نیز یہ کہ] سورۃ الدہر باتفاق مفسرین مکی ہے۔[اس سے سابق الذکر روایت کا کذب ظاہر ہو گیا]۔کسی ایک مفسر نے بھی یہ نہیں کہا کہ: یہ سورت مدنی ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے مابین مشترکہ اصول دین کے بیان کے لحاظ سے بھی یہ سورت مکی سورتوں کے ڈھب پر ہے۔ جیسا کہ ایمان باللہ ؛ آخرت پر ایمان ؛ پیدائش اور بعث کا ذکر [اس سورت کے موضوع ہیں ] ۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم الم تنزیل کے ساتھ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں یہ سورت بھی پڑھا کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس دن آدم کی پیدائش ہوئی ‘ اسی دن جنت میں داخل ہوئے ‘ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔‘‘ [البخاری ۲؍۵ ومسلم ۲؍۵۹۹]۔
یہ دونوں سورتیں آسمان و زمین کی پیدائش ‘ آدم کی پیدائش اور ایک گروہ کے جنت میں اور دوسرے گروہ کے جہنم میں جانے کے ذکر کو شامل ہیں ۔ جب یہ سورت ہی مکہ مکرمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شادی سے پہلے نازل ہوئی ہے تو پھر واضح ہوگیا کہ یہ کہنا کہ یہ سورت حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے بیمار ہونے کے بعد نازل ہوئی ‘ سراسر کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔
چوتھی بات:....اس حدیث کا سیاق اور اس کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ روایت دجالوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہے ۔ان میں سے پہلا کلمہ ہے کہ: ’’فعادھما جدھما و عامۃ العرب ۔‘‘
’’ان دونوں کے نانااور عام عرب ان کی عیادت کے لیے آئے ۔‘‘
اس لیے کہ عام عرب لوگ مدینہ میں مقیم نہ تھے۔اور نہ ہی کفار عرب ان کے پاس آتے اور ان کی عیادت کرتے تھے۔ پھر اس روایت میں دوسرا کلمہ ہے کہ:
’’ فقالوا: یا ابا الحسن! لو نذرت علی ولدیک....الخ۔‘‘
’’اے ابو الحسن اگر آپ اپنے بیٹوں پر نذر مانیں ۔‘‘ اگر ایسا ہوتا تو پھر آپ عرب لوگوں سے دین نہ لیتے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیتے ۔ اس لیے کہ اگر نذر ماننا اطاعت کا کام تھا ؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے زیادہ حق دار تھے کہ
|