Maktaba Wahhabi

143 - 764
’’ کیا انسان پر ایسا وقت نہیں آیا ۔‘‘ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گوناگوں اوصاف کے حامل تھے؛ جو آپ سے پہلے کسی اور کو نہیں ملے۔اور نہ ہی کوئی آنے والا یہ اوصاف پاسکے گا؛ تو اس لحاظ سے آپ باقی لوگوں سے افضل ہوئے ۔پس یہ ان کے امام ہونے کی دلیل ہے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : پہلی بات:....ہم شیعہ مصنف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی صحت ثابت کرے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم یہ مطالبہ کر چکے ہیں ۔کسی بات کو صرف واحدی ‘ ثعلبی یا ان جیسے لوگوں کا روایت کرلینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ روایت بھی صحیح اور قابل حجت ہے۔اس پر تمام اہل سنت اور شیعہ کا اتفاق ہے۔ اگر دو فریقین کے مابین احکام و فضائل کے مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ پر اختلاف ہوجائے ؛ او ران میں سے ایک کوئی ایسی حدیث پیش کرے جس کی صحت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہو ‘ سوائے اس کے کہ ان جیسے مفسرین نے اسے نقل کیا ہے۔تو یہ اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل نہ ہوگی۔ اور نہ ہی اس سے فریق مخالف پر حجت قائم ہوگی۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ شیعہ کی عادت ہے کہ ایسی روایت پیش کرتے ہیں جو کسی دوسرے نے نقل کی ہو۔ان میں سے اکثر کو یہ علم نہیں ہوتا کہ کیا یہ روایت صحیح ہے یا ضعیف؟ اور ایسی حکایات اور اسرائیلی روایات نقل کرتے ہیں جن کے متعلق باقی لوگ جانتے ہیں کہ اصل میں یہ پوری کہانی ہی باطل ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ شیعہ کا کام ہی فقط نقل کو نقل کرنا ہے۔یا لوگوں کے اقوال کو آگے چلانا ہے؛ بھلے اس میں بہت ساری چیزیں سرے سے ہی باطل ہوں ۔ بسا اوقات بعض منقولات کی صحت اور ضعف پر کلام کرتے ہیں مگریہ ان کے ہاں کوئی پکا اصول نہیں اور نہ ہی اس کا التزام کرتے ہیں ۔ دوسری بات:....یہ روایت بہ اتفاق محدثین موضوع ہے۔جولوگ اس فن کے امام ہیں وہ اس کے موضوع ہونے میں ذرہ بھر شک و شبہ نہیں کرتے۔اس باب میں ان ہی لوگوں کی بات مانی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ر وایت کسی بھی ایسی قابل اعتبار مستند کتاب حدیث میں موجود نہیں جس کی طرف رجوع کیا جاتا ہو۔یہ روایت نہ ہی صحاح میں منقول ہے ‘ نہ ہی مسانید میں ؛ نہ ہی جوامع میں اور نہ ہی سنن میں ۔اور نہ ہی مصنفین نے اسے فضائل صحابہ کی کتابوں میں نقل کیا ہے۔اگرچہ یہ لوگ ضعیف روایات بھی نقل کردیتے ہیں ۔[مگر اس روایت کا نام و نشان تک نہیں ملتا]۔جیسے کہ امام نسائی کی جمع کردہ کتاب’’خصائص علی‘‘ میں صحیح و ضعیف ہر قسم کی روایتیں فضائل علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جمع کی گئی ہیں ۔ مگر یہ روایت اس میں بھی مذکور نہیں ۔ اسی طرح ابو نعیم کی کتاب الخصائص؛ خیثمہ بن سلیمان اور امام ترمذی نے اپنی ’’الجامع ‘‘میں فضائل علی کی ضعیف احادیث نقل کی ہیں ، مگر ان کتب میں سابق الذکر روایت کا کوئی نشان نہیں ملتا؛ جس سے اس کا موضوع ہونا ظاہر ہوجاتا ہے۔ اصحاب السِّیَر مثلاً ابن اسحاق نے بھی فضائل علی رضی اللہ عنہ پر مشتمل احادیث ضعیفہ ذکر کی ہیں مگر یہ روایت بیان نہیں کی
Flag Counter