جس سے نہ ہی کسی افضلیت کا تقاضا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی امامت کا ۔ اور جو فضیلت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت ہے اس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ؛جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
’’ اگر میں زمین والوں میں سے کسی کو گہرا دوست بنانا چاہتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔‘‘ [1]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ خبر دینا کہ : مردوں میں حضرت ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کو عزیز تر ہیں ۔‘‘
اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگواہی دیناکہ :
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہم سب سے زیادہ آپ کو چاہتے تھے۔‘‘
ان کے علاوہ دیگر وہ روایات ہیں جن سے دلائل کی روشنی میں نقلی طور پر حدیث مواخات سے ان لوگوں کے استدلال کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔
٭ نواں جواب : بعض لوگوں کا یہ خیال کرلینا کہ مواخات کا رشتہ مہاجرین کے مابین قائم ہوا تھا ؛ کیونکہ اس طرح کی بعض روایات نقل کی گئی ہیں ۔مگر یہ بات دوٹوک یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہوا تھا ۔اور اس طرح کی جتنی بھی روایات ہیں ‘ وہ سب باطل ہیں ۔یہ ان لوگوں کی روایات ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں یا پھر ان لوگوں نے انہیں نقل کیا ہے جن سے نقل کرنے میں خطا واقع ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اصحاب صحاح [ستہ ] نے اس طرح کی کوئی روایت نقل نہیں کی۔
٭ صحیح احادیث سے ثابت شدہ بات ہے کہ مؤاخات کا رشتہ مہاجرین و انصار کے مابین قائم ہوا تھا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اگر مہاجرین کا ان کے آپس میں اور انصار کا ان کے مابین رشتہ مؤاخات قائم کیا ہوتا تو اسے نقل کرنے اور اتنی اہمیت دینے کی کوئی وجہ یا سبب نہ ہوتا ۔اورجہاں دوسرے امور ذکر کیے جاتے ہیں وہاں احادیث مؤاخات میں اس کا ذکر بھی کیا گیا ہوتا۔حالانکہ اس بارے میں کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے ‘ اور نہ ہی اصحاب صحاح ستہ نے ایسی کوئی روایت نقل کی ہے۔یہ بات ہر وہ انسان جانتا ہے جسے صحیح احادیث اورسیرت کی متواتر روایات؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال ؛مؤاخات کے اسباب و فوائداور مقصود کا علم ہوتاہے۔وہ اس مؤاخات کی رو سے ایک دوسرے کے وارث بھی بنتے تھے۔ سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے مابین مؤاخات کا رشتہ قائم کیا تھا۔ جیساکہ آپ نے حضرت سعد بن ربیع اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما ؛اور حضرت سلیمان فارسی اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہما کے مابین مؤاخات قائم کی تھی تاکہ مہاجرین و انصار کے مابین ایک صلہ قائم ہوجائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ﴾ [الأنفال ۷۵]
|