آنکھوں میں تکلیف تھی۔پھر آپ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہنا گراں گزرا ؛ لہٰذا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ آپ کے خیبر پہنچنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’کل میں یہ جھنڈا ایسے انسان کو دوں گا جو اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا ہے اوراللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔‘‘
اس سے قبل یہ جھنڈا نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا اورنہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس۔اورنہ ہی ان دونوں میں سے کوئی ایک جھنڈے کے قریب تک گیا۔یہی وجہ ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : ’’میں نے اس دن کے علاوہ کبھی بھی امیر بننا پسند نہیں کیا۔ اور تمام لوگوں نے اس حالت میں رات گزاری کہ ان میں سے ہر ایک اس امید پر تھا کہ شاید یہ جھنڈا اسے ہی مل جائے۔ جب صبح ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا ؛ توآپ کو بتایا گیا : کہ آپ کی آنکھوں میں تکلیف ہے تو آپ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا؛ جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا عطافرمایا ۔‘‘
٭ اس موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کوبطور خاص جھنڈا عطا کرنا آپ کی تکلیف کے باوجود تشریف آوری پر جزاء تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے بارے میں علم تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت وہاں پر حاضر نہیں تھے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ہے۔ اس حدیث میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے شان میں کوئی تنقیص ہرگز نہیں ۔
٭ دوسرا جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خبر دینا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتے ہیں ‘ اور اللہ اوراس کا رسول ان سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ اس میں نواصب پر رد ہے۔ لیکن اس میں رافضیوں کی کوئی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مرتد ہوگئے تھے۔ اورنہ ہی ان کے لیے اس دلیل سے استدلال کرنا ممکن ہے۔ اس لیے کہ خوارج انہیں یہ جواب دیتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تو ان لوگوں میں سے تھے جو مرتد ہوگئے تھے۔ جیسا کہ جب جرگہ داروں نے فیصلہ کیا توخوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : ’’ آپ اسلام سے ارتداد کا ارتکاب کرچکے ہیں ؛ لہٰذا دوبارہ اسلام قبول کیجیے ۔‘‘
٭ امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’المقالات‘‘ میں لکھتے ہیں :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کفر پر سب خوارج کا اجماع منعقد ہو چکا ہے۔‘‘ [مقالات الاسلامیین ۱؍ ۱۵۶]
٭ اس حدیث سے اہل سنت والجماعت کے لیے کئی دلائل کے ساتھ خوراج کے خلاف استدلال کرناممکن ہے۔ لیکن یہ دلائل باقی تینوں خلفاء کے ایمان کے بارے میں بھی مشترک ہیں ۔جب کہ رافضی باقی خلفاء کے ایمان پر تنقید کرتے ہیں ۔ پس روافض کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خوارج کے خلاف دلیل قائم کرسکیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حالت ایمان میں فوت ہوئے تھے۔بلکہ رافضی جو بھی ا یسی دلیل ذکر کریں گے جس میں قدح ہو؛ اس سے خود ان کے اصل کا بطلان ثابت ہو گا۔کیونکہ ان کی اصل ہی فاسد ہے۔
٭ اس وصف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کسی خصوصیت کو بیان نہیں کیا گیا۔اس لیے کہ دوسرے صحابہ بھی اللہ اوراس کے
|