پاس گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے طرف نکلنے اور ان کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے کا حکم دیا۔مدینہ پر آپ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ ابن ہشام نے ایسے ہی ذکر کیا ہے ۔ اسی دوران حرمت شراب نازل ہوئی۔
ابن اسحق رحمہ اللہ لکھتے ہیں : بنی نضیر قلعہ بند ہو گئے تھے۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کھجور کے درخت کاٹنے اور انہیں آگ لگانے کا حکم دیا۔انہوں نے آواز لگائی:
’’اے محمد!آپ تو فساد پھیلانے سے منع کرتے تھے؛ اور فسادی انسان پر اس کے فساد کو عیب کوشمار کرتے تھے ؛ تو پھر آپ کو کیا ہوگیا کہ آپ کھجوریں کاٹتے اورانہیں جلاتے ہیں ؟‘‘
آپ فرماتے ہیں : بنی عوف بن خزرج میں سے ایک جماعت نے کچھ لوگ بنی نضیر کے پاس بھیجے تھے اور ان سے کہا تھا : تم ہر گزہتھیار نہ ڈالنا؛بلکہ آپ قلعہ بند اور ثابت قدم رہو۔ ہم تمہیں ہر گز مسلمانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ کریں گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ اور اگر تم یہاں سے نکلے تو ہم بھی تمہارے ساتھ یہاں سے نکلیں گے۔ یہ لوگ اپنی نصرت کا انتظار کرنے لگے۔مگر بنی عوف نے کچھ بھی نہ کیا ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔آخر کار انہوں نے خودیہ پیش کش کی کہ انہیں قتل نہ کیا جائے ؛بلکہ اس بات پر مصالحت ہو گئی کہ ان کو جلا وطن کردیا جائے گا۔اور انہیں وہ سامان ساتھ لیکر جانے کی اجازت ہوگی جو ان کے اونٹ اٹھاسکیں ؛سوائے حلقات کے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔انہوں نے اپنا وہ تمام سامان ساتھ لے لیا جو ان کے اونٹ اٹھا سکتے تھے۔جنگی سازوسامان کے سوا اپنا تمام سامان اونٹوں پر لاد کر لے گئے ۔ یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی اپنے ہاتھ سے اپنے مکان کو گراتا اور اس کا ملبہ بھی اونٹوں پر لاد کر لے جاتا ۔یہ یہودی خیبر و شام کی طرف نکل گئے۔[1]
آپ فرماتے ہیں : ہم سے عبد اللہ بن ابی بکر نے حدیث بیان کی ؛ ان سے یہ حدیث بیان کی گئی کہ : انہوں نے اپنے بچے عورتیں اور اموال اپنے ساتھ لے لیے۔ ان کے ساتھ دف اور باجے بھی تھے اور کچھ چھوکریاں بھی تھیں جو ان کے پیچھے پیچھے فخرو نازکیساتھ گاتی جاتی تھیں ۔لوگوں میں کوئی قبیلہ ان جیسا نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنے باقی اموال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھوڑ دیے تھے۔ یہ اموال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھے؛ آپ جیسے چاہتے ان میں تصرف کرتے۔ آپ نے یہ اموال انصارکو چھوڑ کر مہاجرین اولین میں تقسیم کیے ۔ انصاری میں سے حضرت سہل بن حنیف اور ابو دجانہ [سماک بن خرشہ] رضی اللہ عنہما کو ان کی غربت اور فاقہ کی وجہ سے کچھ حصہ دے دیا۔
فرمایا: ’’ پوری سورت حشر بنی نضیر کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔ اس میں وہ عذاب اور سزا ذکر کی گئی ہے جو بنی نضیر کو دی گئی؛ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان لوگوں پر مسلط کیا۔
|