حکایات بیان کرتے ہیں جنہیں وہ اپنی طرف گھڑ کر ہارون اور جعفر کی طرف مسنوب کرتے ہیں ۔ پس ان غزوات کی کہانیاں بھی اسی جنس کی کہانیوں سے ہیں ۔ مندرجہ ذیل علماء نے سیر و مغازی کے فن میں بڑی مہارت حاصل کی تھی، مگر ان میں سے کسی نے بھی یہ واقعہ بیان نہیں کیا:
مغازی کے مشہور علماء کے اسماء یہ ہیں : عروہ، زہری، ابن اسحاق، موسیٰ بن عقبہ، ابو معشر سندھی، لیث بن سعد، ابو اسحاق فزاری، ولید بن مسلم، واقدی، یونس بن بکیر، ابن عائذ اور ان کے نظائر وامثال وغیرہ۔نہ ہی ان کا ذکر حدیث میں ہے اور نہ ہی اس بارے میں قرآن نازل ہوا ہے۔
خلاصۂ کلام! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مغازی ؛ خصوصاً جن میں قتال کی نوبت پیش آئی ؛ بہت ہی مشہور و معروف ہیں ۔ اور اہل علم کے ہاں ان کے احوال کو تواتر کے ساتھ ضبط بھی کیا گیا ہے؛ اور تفسیر و حدیث ‘ فقہ وسیرت اور مغازی کی کتابوں میں ان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔یہ وہ واقعات ہیں جن کو نقل کرنے کے دواعی و اسباب موجود تھے۔ یہ بات عادت و شریعت میں ممتنع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا غزوہ ہوا ہو؛ جس میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا ہو‘ مگر پھر بھی اہل علم میں سے کوئی ایک بھی اسے نقل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح ممتنع ہے جیسے کوئی دن اور رات میں پانچ نمازوں سے زیادہ کو فرض قراردیدے۔ یا سال میں ایک ماہ سے زیادہ کے روزوں کو فرض قراردے ‘ جب کہ ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے۔اور جیسا کہ یہ بات ممتنع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فارس کے ساتھ عراق میں غزوات کیے ہوں ‘یا پھر آپ یمن گئے ہوں ۔کسی ایک نے بھی یہ بات نقل نہیں کی۔اس طرح کی کئی دیگر باتیں بھی ہیں جو اگر روپذیر ہوئی ہوتیں تو انہیں نقل کرنے کے اسباب موجود تھے ۔
مذکورہ صدرسورت کریمہ ﴿اَ لْعَادِیَات﴾ کے نزول کے متعلق دو قول ہیں ۔ایک قول یہ ہے کہ: یہ سورت مکہ میں اتری ہے ۔ یہ قول ابن مسعود ‘ عطاء اور عکرمہ اور دوسرے مفسرین رحمہم اللہ کا ہے۔ اس قول کی بنیاد پر شیعہ مصنف کا بیان کردہ واقعہ صاف ظاہر طور پر جھوٹا ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ: یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ یہ قول ان لوگوں کے قول کے ساتھ مناسب ہے جوکہ ﴿اَلْعَادِیَات﴾ کی تفسیر مجاہدین کے گھوڑوں سے کرتے ہیں ۔لیکن اس آیت کی تفسیر میں مشہور اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ﴿ اَلْعَادِیَات﴾ سے حاجیوں کے اونٹ مراد ہیں ، جو مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان بھاگتے ہیں ۔یہ تفسیر پہلے قول کے موافق ہے۔ اس کی روسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان خود شیعی دعوی کو جھٹلا رہا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور اکثر مفسرین اس سے مجاہدین کے گھوڑے مراد لیتے ہیں ۔
٭ اس روایت کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ کفار نے مسلمانوں کے لیے خیر خواہی سے کام لیا۔اورابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ اپنے ساتھی کے پاس واپس چلے جائیے چونکہ ہم بہت بڑی تعداد میں ہیں ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بات جنگجو [یا پیش معرکہ ]کفار کی عادت کے خلاف ہے۔
|