ہو گا تو پیچھے چلتا ہوں اور جب اگلی جانب سے خطرہ محسوس کرتا ہوں تو آپ کے آگے ہو جاتا ہوں ۔‘‘، جب غار کے قریب پہنچے تو عرض کیا کہ ٹھہریے! تاکہ میں غار میں داخل ہو کر اس کو صاف کرلوں ۔[1]
امام احمد رحمہ اللہ نے ’’مناقب الصحابہ ‘‘ میں ذکر کیا ہے: فرماتے ہیں : ہم سے وکیع نے حدیث بیان کی ؛ وہ نافع سے اوروہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ؛ وہ ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں ؛آپ فرماتے ہیں :
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو غار ثور کے راستہ پر چل پڑے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت کے اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ دوران سفر ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے لگتے کبھی آگے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ! جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ دشمن عقب سے آپ پر حملہ آور ہو گا تو پیچھے چلتا ہوں اور جب اگلی جانب سے خطرہ محسوس کرتا ہوں تو آپ کے آگے ہو جاتا ہوں ۔‘‘ جب غار کے قریب پہنچے تو عرض کیا کہ ٹھہریے! تاکہ میں غار میں داخل ہو کر اس کو صاف کرلوں ۔‘‘
امام نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھ سے ایک آدمی نے بیان کیا کہ: ابن ابی ملیکہ نے یہ بھی کہا ہے: اس موقع پرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غار میں ایک سوراخ دیکھا، اس کے آگے اپنا پاؤں رکھ کر اسے بند کردیا ؛ اور عرض گزار ہوئے :یارسول اللہ! اس میں اگر سانپ یا بچھو وغیرہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے مجھ کو کاٹے۔‘‘[2]
اس صورت میں واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات پر راضی نہ تھے۔ نہ ہی ان معنوں میں جیسا کہ رافضی خبیث افتراء پردازنے ذکر کیا ہے؛اس لیے کہ آپ ہرگزاس بات پر راضی نہ تھے کہ وہ زندہ رہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا جائے۔اورنہ ہی اس بات پر راضی تھے کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ بلکہ آپ چاہتے تھے کہ اپنی جان و مال اور اہل عیال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کردیں مگر آپ پر آنچ نہ آئے۔ ایسا کرنا ہر مؤمن پر واجب ہے ۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام مؤمنین میں سے پختہ ایمان والے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ﴾ [الأحزاب۶]
’’پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں ۔‘‘
صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے والدین و اولاداور سب لوگوں سے بڑھ کر مجھے عزیز تر نہ سمجھے۔‘‘[3]
|