Maktaba Wahhabi

682 - 764
ہے۔ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ : آپ سے کہا گیا: ’’آپ پروہ مصائب آئے کہ اگر پہاڑ پر آتے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا؛ اور سمندر پر آتے تووہ خشک ہوجاتا ؛ لیکن ہم نہیں دیکھتے کہ آپ کمزور ہوئے ہوں ۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ غار والی رات کے بعد کبھی بھی میرے دل میں رعب داخل نہیں ہوا۔ بیشک جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا حزن و ملال دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’ اے ابوبکر تم پر کوئی غم نہیں ہونا چاہیے۔بیشک اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کو پورا کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے ۔‘‘ پھر ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: جو کوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یقین و صبر کو دوسرے صحابہ کرام جیسے : حضرت عمر ‘ حضرت عثمان یا حضرت علی رضی اللہ عنہم سے تشبیہ دے ؛ یقیناً وہ بہت بڑا جاہل ہے۔اہل سنت کے ہاں حضرت عمر و عثمان اور حضرت رضی اللہ عنہم پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ۔لیکن رافضی نے جو یہ دعوی کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان صفات میں دوسرے تینوں صحابہ کرام سے اکمل و افضل ہیں ؛ یہ محض بہتان‘جھوٹ اور افتراء پردازی ہے۔ اس لیے کہ جو کوئی بھی حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کی سیرت پر غور کرے گا تو اسے پتہ چلے گا کہ مصائب ومشکلات میں یہ حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ کامل صبرو ثبا ت اور استقلال و استقامت والے ہوا کرتے تھے۔ لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا گھیراؤ کیا؛ آپ سے مطالبہ کیا کہ یا خلافت چھوڑ دیں یا پھرقتل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں ۔اوروہ برابرآپ کا محاصرہ کیے رہے یہاں تک کہ آپ کو قتل کردیا۔اس حالت میں بھی آپ لوگوں کو اپنے دفاع میں لڑنے سے منع کرتے رہے۔یہاں تک کہ آپ مظلومیت کی حالت میں شہید ہوگئے مگر اپنی ذات کا دفاع نہیں کیا۔تو کیا مصیبت میں اس سے بڑھ کر صبر کی بھی کوئی مثال ہوسکتی ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے صبر کی طرح نہیں تھا۔بلکہ آپ کے اہل لشکر اور آپ سے لڑنے والوں کو آپ کی وجہ سے بعض ایسی تکالیف بھی پہنچیں کہ ایسی تکالیف حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سے نہیں پہنچی تھیں ۔حالانکہ جن لوگوں سے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑرہے تھے وہ کافر تھے۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے ؛ وہ دشمن کی تعداد کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نسبت بہت کم تھے۔اور ان کا دشمن کئی گنا بڑی تعداد کا تھا۔جن کفار سے ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے جنگیں لڑیں وہ مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھے۔جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کالشکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نسبت بہت کم تھا۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ : امام کو درپیش خوف کہ کفار مسلمانوں پر غلبہ نہ حاصل کرلیں ‘اس خوف سے بڑھ کر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے گروہ آپس میں ایک دوسرے پر غالب آجائیں ۔ اس لحاظ سے ائمہ ثلاثہ کا دشمن سے خوف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خوف سے کئی گنازیادہ تھا۔ اور اس خوف کا مقتضی بھی بہت بڑا تھا۔ مگر اس کے باوجود یہ لوگ اپنے دشمن اور پیش جنگ لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں یقین و صبر استقامت اور ثابت قدمی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے دشمن کے ساتھ برتاؤ میں نہ صرف کامل بلکہ اکمل تھے۔تو پھر کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ یقین و ثبات اور صبر و استقامت میں
Flag Counter