حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام سنح پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا۔آپ فرماتی ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ’’اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہی بات آئی تھی۔کہ اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو دوبارہ مبعوث فرمائے گا‘ اور آپ منافقین کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے۔ پس اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قصد کیا۔آپ کے چہرہ انور سے چادر اٹھائی پھر آپ پر جھکے اور آپ کے چہرے کو بوسہ دیا پھر روئے اور فرمایا اے اللہ کے نبی آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! آپ نے پاکیزہ زندگی گزاری ‘اور پاکیزہ موت پائی۔مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا۔‘‘
پھرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے [اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے]، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ:اے قسم اٹھانے والے!جلدی نہ کرو۔چنانچہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا ؛اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی ؛ اور فرمایا:
’’تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا۔ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، نہیں مرے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ ﴾ [الزمر ۳۰]
’’یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ ﴾
’’(حضرت)محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف رسول ہی ہیں آپ سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جا گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ۔‘‘
سب لوگ(یہ سن کر)بے اختیار رونے لگے۔[البخاری ۵؍۶]
مزیدبرآں یوم بدر میں جھونپڑے کا قصہ؛ اور حدیبیہ کے دن آپ کا اطمینان و سکون معروف قصے ہیں ؛ جن کی وجہ سے آپ کی خصوصیت تمام صحابہ سے نمایا ہوتی ہے ۔ پھر آپ کی طرف بزدلی [یا ایمانی کمزوری]کو کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے۔
نیز آپ کا مرتدین اور مانعین زکواۃ سے جہادکرنا؛اہل ایمان کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا؛اور اس کے ساتھ ہی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو روانہ کرنا؛ ایسے امور ہیں جن سے آپ کا سب سے بڑا اہل ایمان ویقین ہونا واضح ہوتا
|